Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ججز کالی بھیڑیں نہیں ’بلیک بمبل بی‘ ہیں‘، سپریم کورٹ میں آج کیا ہوا؟

عمران خان نے کہا کہ وہ استدعا کرتے ہیں ان کے مقدمات کو مقرر کر کے سماعت کی جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ میں مقدمہ تو نیب قانون میں ترامیم کیس کے فیصلے پر تحریک انصاف کے چیئرمین کی انٹراکورٹ اپیل کا ہے مگر جمعرات کو تمام نظریں کمرہ عدالت سے کارروائی لائیو سٹریمنگ پر تھیں۔
ساڑھے گیارہ بجے سماعت کا وقت مقرر تھا اور 16 منٹ کی تاخیر سے پانچ ججز کا لارجر بینچ کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔
اسی دوران کمرہ عدالت میں لگی سکرین منور ہوئی تو اڈیالہ جیل سے عمران خان نظر آئے جن کے پس منظر میں جیل پولیس کا ایک اہلکار بھی تھا۔
عمران خان نے اپنے سامنے کیمرہ مین کو اشارے سے بتایا کہ اُن کو ہاف یعنی سینے تک دکھائے۔ ادھر عدالت میں کسی کی سرگوشی گونجی کہ آج تو ’شارک بلیو‘ کلر کی شرٹ پہنی ہے۔
عدالت کے روسٹرم پر خیبر پختوںخوا کے ایڈووکیٹ جنرل آئے تو استدعا کی کہ سماعت لائیو سٹریم کی جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’یہ عوامی مفاد کا مقدمہ نہیں بلکہ نیب قانون میں ترمیم سے متعلق ایک تکنیکی معاملہ ہے۔ آپ تشریف رکھیں۔‘
اس دوران بینچ میں سب سے دائیں طرف بیٹھے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اُن کی رائے میں یہ عوامی مفاد کا مقدمہ ہے، اور اس کی لائیو سٹریمنگ ہونی چاہیے۔
ججز کے درمیان اس اختلاف کے بعد کمرہ عدالت میں گھنٹیاں بجنا شروع ہوئیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ججز اُٹھ کر واپس جا رہے ہیں۔
ججز کے لیے دروازہ کھولنے والے اہلکار گھنٹیاں بجتے ہی اپنا کام کرنے کے لیے مستعدی سے لپکے۔
پانچ منٹ کی اس سماعت کے بعد اُٹھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کچھ دیر میں واپس آتے ہیں۔
لائیو سٹریمنگ پر ججز کی مشاورت نے 55 منٹ کمرہ عدالت میں سب کو انتظار کرایا۔
لگ بھگ پونے ایک بجے جب بینچ واپس آیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مقدمے کی سماعت لائیو سٹریم نہیں ہوگی اور اس حوالے سے فیصلہ چار ججز نے کیا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے اختلاف کیا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’تاہم مدعا علیہ (عمران خان) عدالتی کارروائی میں براہ راست حصہ لے سکیں گے۔‘
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے تو اس دوران ایک موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو مخاطب کر کے کہا کہ ’وزیراعظم نے ججز کو کالی بھیڑیں کہا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وزیراعظم کا مخاطب موجودہ ججز نہیں تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز کالی بھیڑیں نہیں بلکہ ’بلیک بمبل بی‘ ہیں۔
سماعت کے اختتام سے قبل عمران خان کا مائیک آن کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہماری درخواستیں زیرسماعت ہیں۔ اور آٹھ فروری کے عوامی میںڈیٹ پر بڑے ڈاکے والے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی بھی درخواست کر رکھی ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ وہ استدعا کرتے ہیں ان مقدمات کو مقرر کر کے سماعت کی جائے۔

عدالتی کارروائی لائیو سٹریم نہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے قبل ججز نے 55 منٹ مشاور کی۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی ایکس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اُن مقدمات میں وکلا کے ذریعے استدعا کریں، اس وقت نیب کے مقدمے میں ہمارے سامنے ہیں تو اس کے بارے میں سُننا چاہیں گے۔‘
عمران خان نے کہا کہ وہ قید تنہائی میں ہیں تو وکلا سے اس طرح مشاورت نہیں کر سکتے۔
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین لگ بھگ ڈیڑھ منٹ بولے۔ اس کے بعد ججز نے پانچ منٹ اس پر بات کی۔
چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ وہ اس مقدمے کے ابتدائی حصے میں عمران خان کی طرف سے پیش ہو چکے ہیں تو اس مرحلے پر عدالت کی معاونت کریں اور اگر مدعا علیہ (عمران خان) قانونی نکات پر مدد چاہتے ہیں تو وہ بھی کریں۔

شیئر: