Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈوبتے ڈھاکہ نے پنڈی ڈبو دیا؟ اجمل جامی کا کالم

یہ محمد رضوان ہی تھے جو پہلی اننگز میں شاندار 171 رنز کے بعد فوراً وکٹ کیپنگ کر رہے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
چار فاسٹ بولر اور وہ بھی پنڈی کی تقریباً فلیٹ اور ڈیڈ پچ پر؟ ابرار جیسا سپنر یا کوئی اور پلیئنگ الیون میں شامل نہ کیا گیا۔ اور جب سپنر کی ضرورت محسوس ہوئی تو دانشور ترین قیادت اور سلیکٹرز  نے بال آغا سلمان جیسے پارٹ ٹائم بولر کو تھما دی جس نے بنگلہ دیش کی پہلی اننگر میں  41 اوورز میں بغیر کسی وکٹ کے 136 رنز کھائے۔ 
اور تو اور فاسٹ بولرز کے نام پر دو مہا پیسرز یعنی محمد علی  اور خرم شہزاد کی گیند 135 کی سپیڈ بھی چھونے سے قاصر تھی، آنکھیں دھندلا رہی تھیں کہ یہ ہے پاکستان کی پیس بیٹری، یہ تو وہ ٹیم ہوا کرتی تھی جس کی پیس بیٹری میں باہر بیٹھے کم سے کم چار سے پانچ فاسٹ بولر 140 پلس کی سپیڈ اور سوئنگ کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ یہ بحران یہ تنزلی، یہ بیڑہ غرق کہ سپیڈ محض 125 یا 130؟ کیا یہ پاکستانی فاسٹ بولرز ہی ہیں یا زمبابوے کے موزاربانی اور چتارہ نامی بولر؟
دونوں مہا فاسٹ بولرز کی لائن تھی نہ لینتھ، سوئنگ تھی نہ پیس۔ ایکشن تھا نہ فٹنس۔ ردھم تھا نہ فاسٹ بولرز کی سی باڈی لینگوئج۔ کیا واقعی ٹیم پاکستان کی پیس اٹیک بیٹری ڈیڈ ہو چکی یا وجہ محض ناقص سلیکشن؟ سپنرز کی عدم موجودگی سے لے کر فاسٹ بولرز کی پرفارمنس تک، سوال ہی سوال، مایوسی ہی مایوسی تھی، غور سے دیکھا تو شاہین کے ساتھ نسیم بھی کچھ زیادہ عمدہ ردھم میں دکھائی نہ دیے، شاید اس دور کے فاسٹ بولرز ہمارے ہاں ٹیسٹ کھیلنے کا سٹیمنا ہی نہیں رکھتے۔ عادتیں بگڑ گئی ہیں یا فٹنس اس قابل نہیں؟
نسیم کو دیکھیے، اچھا خاصا نوجوان جس کے ہاں پیس بھی ہے اور سوئنگ بھی، لائن لینتھ بھی اور ردھم بھی، مگر ناقص فٹنس اور پھولتا پیٹ فاسٹ بولر کی شان پر دھبے لگا رہا تھا۔ کون ہیں ان کے مینٹورز؟ کون ہیں ان کے کوچز؟ کون ہیں ان کے ہینڈلرز؟ وراٹ کوہلی سے ایک پوڈ کاسٹ میں میزبان نے پوچھا کہ روایتی کھابوں میں کیا پسند کرتے ہیں؟ چہرے پر عجب افسردگی  سجائے کوہلی مسکرا کر بولے کہ جامعہ مسجد دہلی کے پچھواڑے سے ملنے والے تاریخی سموسے!
ساتھ ہی انہوں نے آہ بھری تو میزبان پھر گویا ہوا؟ آخری بار کب کھائے تھے؟ مزید افسردگی کے ساتھ کوہلی بولے کہ برسوں پہلے۔ ساتھ ہی وجہ بتائی کہ اب ان کی ڈائٹ سے لے کر فٹنس تک ہر معاملہ کوچ اور ضابطے کا پابند ہے۔ چاہ کر بھی وہ چیٹنگ نہیں کر سکتے، ہر وقت سبز پتوں کے جوس اور انتہائی ہیلتھی ڈائٹ لیتے ہیں۔ ان کی فٹنس کا یہی ایک راز تھا جو ہمارے ہاں ایک خواب ہے۔ یہ کھابے بھی کھاتے ہیں اور خوامخواہ ہیرو بننے کی جستجو میں بھی مبتلا رہنے والے ہیں جو ہلکی سی شہرت بھی ہضم کرنے سے قاصر ہیں۔  
یعنی غضب خدا کا۔ ٹیم بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے، ملک میں تصاد م ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، سیاسی طور پر عدم استحکام ہے، سرکار کاتختہ پلٹا گیا ہے، خانہ جنگی کی سی صورتحال تھی، نظام تہس نہس ہو چکا ہے، معیشت  مسلسل دگر گوں ہے، ہر شعبہ عجب غیر یقینی کی سی صورتحال سے دوچار ہے، اور ظاہر ہے جو کچھ بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں ہوا اس کے اثرات ان کے ہاں ہر طبقہ ہائے زندگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، نفسیاتی طور پر تمام افراد بجھے بجھے سے اور مایوس مایوس سے ہیں، ٹیم بنگلہ دیش بھی انہی میں سے ایک ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی باڈی لینگوئج پہلے ٹیسٹ میں مرجھائی ہوئی ہوتی، چہرے لٹکے ہوئے ہوتے، پرفارمنس سطحی ہوتی، مگر نہیں! ہوم گراونڈ پر شاہینوں کو ڈھیر کرنے میں انہیں محض ایک سیشن لگا۔
آخری روز کا پہلا سیشن۔ ان کی ہمت اور کوشش تھی اور ہماری ٹیم کا لاغر پن اور نالائقی، ہمت کے سامنے لاغر پن ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو پنڈی ٹیسٹ کے آخری روز ہوا۔

دونوں مہا فاسٹ بولرز کی لائن تھی نہ لینتھ، سوئنگ تھی نہ پیس۔ ایکشن تھا نہ فٹنس۔ فوٹو: اے ایف پی

شکیب الحسن قتل کے مقدمے میں مطلوب ہیں، ٹیسٹ کھیلتے ہوئے انہیں علم ہوا، وہ جانتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ وطن واپسی پر کیا سلوک ہوسکتا ہے مگر شکیب نے اپنا سو فیصد میدان میں دیا، عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور نسیم شاہ کی وکٹیں حاصل کیں۔ میچ میں یکسوئی کے ساتھ اپنا ہنڈرڈ پرسنٹ دیا۔ اور ہمارے ہاں؟ کپتان فیلڈ پلیسمنٹ کے حوالے سے تذبذب کا شکار، بلے باز وکٹ پر ٹھہرنے سے عاری، صرف محمد رضوان کی دونوں اننگز کی باریاں مائنس کر کے سکور کارڈ دیکھیں، زوال کی انتہا دکھائی دے گی۔
یہ محمد رضوان ہی تھے جو پہلی اننگز میں شاندار 171 رنز کے بعد فوراً وکٹ کیپنگ کر رہے تھے اور کمال ایتھلیٹ پرفارمنس سے لاجواب کیچ بھی تھام رہے تھے۔ رضوان کے علاوہ سعود شکیل کا عمدہ کھیل اپنی جگہ لیکن باقی کھلاڑیوں کی بدن بولیاں کیا پیغام دے رہی تھیں؟ کہاں رہ گئے صف اول کے بلے باز بابر اعظم؟ کپتان کاوئنٹی تو کھیلتے رہے مگر ہوم گراونڈ کی ڈیڈ وکٹ پر کیوں نہ ٹک سکے؟ 
 اور یہ آغا سلمان کہاں کے ٹیسٹ ایکپسرٹ  ہیں؟ کون سے کارہائے نمایاں سر انجام دے کر موصوف ٹیسٹ الیون کا حصہ ہیں؟ الغرض یہ کہ جس شعبے پر بھی نظر دوڑائی جائے زوال ہی زوال، مایوسی ہی مایوسی اور پرچی ہی پرچی دکھائی دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اطلاع ہے کہ اب بھی ٹیم گروپنگ کا شکار ہے۔ اب بھی اندر کھاتے لابنگ جاری ہے۔ رہ گئی بات جناب نقوی کی تو وہ فرما گئے ہیں کہ کرکٹ کو سدھار کر ہی دم لیں گے۔ معلوم نہیں کہ اس سدھار کے چکر میں مزید کتنے سانحے کرکٹ پر گزریں گے۔  
ننانوے کے ورلڈ کپ کا سانحہ نارتھمپٹن ہو یا باب وولمر کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست پر زندگی کی بازی ہار جانا۔
ٹیم پاکستان کے ہاں سانحوں کی تاریخ پرانی ہے، مگر سانحہ پنڈی ٹیسٹ اس زوال کا تابوت ہی کہلائے گا۔ کرکٹ کی بربادی ہو رہی ہے، ڈومیسٹک کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، ٹیلنٹ رسوا ہے، پرچی توانا ہے۔ منیجمنٹ نان پروفیشنل ہے، کھلاڑی کھیلنے کی بجائے لابنگ میں مگن ہیں۔ کس کس باب پر باب وولمر کی موت ہو گی۔

شیئر: