ریکارڈ آمدن، پاکستان کا ریلوے نظام واقعی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے؟
ریکارڈ آمدن، پاکستان کا ریلوے نظام واقعی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے؟
ہفتہ 7 ستمبر 2024 5:36
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
گذشتہ دو سال سے ریلوے کو حکومت کی طرف کسی بھی طرح کی اقتصادی معاونت نہیں ملی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ ریلوے نے رواں برس 88 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا ہے اور ادارہ خسارے کے بجٹ سے نکل کر پہلی مرتبہ منافع کی جانب بڑھا ہے۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ریلوے کا کوئی وزیر ہی نہیں ہے۔
مبصرین کے خیال میں ملک میں جاری اقتصادی بحران کے باعث جب بوجھ بننے والے اداروں کی بات آئی تو اس میں پی آئی اے کے بعد ریلوے کا نام لیا جا رہا تھا کیونکہ ریلوے کے لیے حکومت کو سالانہ 40 ارب روپے تک کا بیل آوٹ پیکج بھی دینا پڑا۔
گذشتہ دو سال سے ریلوے کو حکومت کی طرف کسی بھی طرح کی اقتصادی معاونت نہیں ملی۔ اور بظاہر نجکاری کی لٹکتی تلوار سے ریلوے کی ’اسٹیبلشمنٹ‘ نے بالاخر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ادارے کو اب چلا ہی لیا جائے۔
تو پھر ایسا کیا معجزہ ہوا کہ خسارے میں چلنے والا ادارہ جس کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں تھے اب ریکارڈ آمدن پر جا رہا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ریلوے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز حسن طاہر بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ معجزہ خود ادارے کے اندر سے ہی ہوا ہے۔ اور پچھلے دو سالوں سے یہ بات باور ہو چکی ہے کہ ریلوے کو چلنا ہو گا ورنہ ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو گا۔ جب ریلوے میں ملازمین کو تنخواہ پہلی تاریخ کو مل رہی ہوں، ٹرین وقت پر آ رہی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے معاملہ بہتری کی طرف جا رہا ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دو برس پہلے سیلاب میں جب چالیس روز تک بڑے آپریشن بند رہے تو اس وقت ادارے کے بڑے افسران سر جوڑ کر بیٹھے اور پھر جو فیصلے لیے گئے ان پر عمل ہونا شروع ہوا جس کی وجہ سے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا فیصلہ مسافر ٹرینوں کی نجکاری تھا۔ اس وقت تقریباً 12 ٹرینز نجی شعبہ چلا رہا، دس مزید اس ہفتے نجی شعبے کے حوالے کی جا رہی ہیں جس سے مزید بہتری کی توقع ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان ریلوے کے 72 ہزار سے زائد ملازمین ہیں جن کی سالانہ تنخواہوں کی رقم 45 ارب روپے ہے۔ ریلوے پر بوجھ کر کم کرنے لیے جہاں 7 ہزار 226 ملازمتیں جن پر نئی بھرتی ہونا تھی انہیں سرے سے ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کا نوٹیفیکشن پانچ ستمبر کو جاری کیا گیا ہے۔
ریلوے شعبہ تعلقات عامہ کے افسر بابر رضا نے بتایا کہ ’پاکستان ریلوے میں بہتری کا ثبوت نمبرز ہیں۔ فریٹ ٹرینز روزانہ کی بنیاد پر ان کی تعداد پانچ اعشاریہ پانچ ہو چکی ہے جو کہ ایک اعشاریہ کچھ ہوتی تھی۔ اور سارا معاشی بوجھ ان پر تھا اب پہلی دفعہ ہوا ہے کہ مسافر ٹرینز بھی کمانا شروع ہوئی ہیں جس سے صورت حال میں ایک واضح تبدیلی ہوئی ہے۔‘
مختلف نجی شعبے کو دی جانے والی ٹرینز میں ایک مسابقت کا عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے اور آئے دن مسافروں کو لبھانے کے لیے بوگیوں کی سجاوٹ، صفائی کے نظام کی بہتری اور ٹرینز کے اندر ہی ریستوران اور بہتر کوالٹی کے کھانے کی سپلائی نے بھی ریلوے کے چہرے کو ایک نئی شکل دی ہے۔
مبصرین کے مطابق بہتری کے آثار تو ہیں لیکن ریلوے کو مکمل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ ریلوے ورکرز یونین کے مرکزی رہنما اعجاز قریشی کہتے کہ ’اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آپ کے روز مرہ کے معاملات میں بہتری آئی ہے۔ بلکہ سوال ہے کہ ریلوے نظام میں کتنی بہتری آئی ہے؟ بیوروکریسی ہی اس کی ذمہ دار تھی۔ یہ بتایا جائے کہ انگریز دور سے چلنے والے روٹس میں کتنا اضافہ ہوا؟ کتنے نئے شہر اور قصبے ریل سے منسلک کیے گئے؟ دنیا بھر میں ٹرین کے جدید نظام کے مقابلے میں ٹیکنالوجی کا کتنا استعمال کیا گیا؟ میرا خیال ہے کہ اگر اوپر والے مخلص ہوتے تو نجی شعبے کے بجائے یہ خود ہی ٹھیک کر سکتے تھے۔ ابھی بھی خود کام کرنے کے بجائے ٹرینیں ٹھیکے پر دے رہے ہیں۔‘
ریلوے میں ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز حسن بخاری کا کہنا ہے کہ دینا بھر میں ریلوے نظام نجی شعبے کے تعاون سے ہی چل رہے ہیں۔
’ہم تو ابھی سروائیول موڈ سے نکل رہے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ ہماری سمت درست ہے اور جلد ہی ہم تھرائیونگ موڈ میں داخل ہوں گے۔ روز بروز آمدن میں اضافہ اسی بات کی دلیل ہے کہ ہم درست سمت میں ہیں۔ اپگریڈیشن کی طرف بھی ہم جا رہے ہیں۔ تمام ریلوے سٹیشنز کو سولر پر شفٹ کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ لوکو موٹوز میں جدید پرزے نصب کیے جا رہے ہیں جس سے تیل کی چوری رکے گی اور درست لوکیشنز میں مدد ملے گی۔‘
یاد رہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے ریلوے کے نظام کو 2026 تک اپ گریڈ ہونا تھا۔ تجارتی ٹریک دو رویہ کرنے کے علاوہ ٹرینوں میں اضافے اور دیگر معاملات میں بہتری پر تین ارب امریکی ڈالر لاگت آنا تھی، تاہم سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کی وجہ سے وژن 2026 تو پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا البتہ ریلوے اپنے آپ چلنے کے لیے شاید پہلے پہلے قدم اٹھا رہا ہے۔