Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک ’کاروبار کا خواب‘، نوجوان کامیاب ایکسپورٹر کیسے بن سکتے ہیں؟

برآمدات کے شعبے میں نوجوانوں کی دلچسپی سب سے زیادہ آئی ٹی میں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے برآمدی شعبے میں نوجوانوں کی دلچسپی بڑھا کر نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ اس اقدام سے نوجوان اچھے روزگار سے بھی منسلک ہو سکتے ہیں۔ 
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان برآمدی شعبے میں سے سب سے زیادہ دلچسپی انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) میں لے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں نوجوان مختلف آئی ٹی کمپینیوں کے ذریعے بیرون ممالک خدمات فراہم کر کے ملک کی برآمدات میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ جبکہ ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی مصنوعات کی برآمدات میں بھی نوجوانوں کی دلچسپی واضح ہے۔ 
 تاہم اگر نوجوانوں کو برآمدی شعبے میں مزید مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی کی سروسز کے علاوہ دیگر پاکستانی مصنوعات کو بھی بیرون ممالک بھیج کر ملکی برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کامیاب ایکسپورٹر بننے کے لیے نوجوان پاکستان کے درآمدی شعبے میں قدم رکھ سکتے ہیں جس کے لیے انہیں اپنی دلچسپی کی مصنوعات کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ آئی ٹی، ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی مصنوعات جیسے شعبوں میں نوجوانوں کی بیرون ممالک اشیا کی فروخت کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
برآمدی شعبے میں نوجوانوں کے لیے مواقع
نوجوانوں کے لیے برآمدی شعبے میں موجود مواقعوں کے حوالے سے وزارت تجارت کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان سالانہ بنیادوں پر اپنی کئی مصنوعات بیرون ممالک برآمد کرتا ہے۔ ان تمام مصنوعات میں نوجوانوں کو بھی برابر کے مواقع میسر ہوتے ہیں اور کچھ ایسے شعبے بھی ہیں جہاں پاکستانی نوجوان اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ 
حکام کے مطابق پاکستان ٹیکسٹائل، کھیل، انجینیئرنگ، پھل، سبزی اور خدمات کے شعبے میں اپنی مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ ان میں سے نوجوانوں کی زیادہ دلچسپی خدمات کے شعبے میں آئی ٹی سلوشن، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ، ای کامرس، کسٹمر کیئر اور کلائنٹ مینجمنٹ پروگرام، اکاؤنٹنگ، مالی خدمات اور مشاورت، انجینیئرنگ، طبی خدمات وغیرہ میں دیکھنے کو ملی ہے۔ 

برآمدی شعبے میں نوجوانوں کی بہت زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے علاوہ کھیلوں کی برآمدات میں بھی نوجوانوں کی دلچسپی موجود ہے۔ ۔فٹبال، کرکٹ، والی بال اور دیگر کھیلوں کی مصنوعات میں بھی نوجوان کاروبار کے ذریعے ملک کی ایکسپورٹس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ 
نوجوان پاکستانی مصنوعات بیرون ممالک کیسے بھیج سکتے ہیں؟
نوجوانوں کی طرف سے مختلف مصنوعات بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے وزارت تجارت کے حکام نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں مختلف رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کمپنیاں یا تو بیرون ممالک مختلف اقسام کی مصنوعات بھیج رہی ہیں یا پھر خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے نوجوان اپنی کمپنی کی رجسٹریشن کروائیں لیکن حکومتی سطح پر رجسٹرڈ کمپنیوں کی زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ، ایس ایس ای سی پی وغیرہ میں کمپنی کی رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے اور ساتھ کمپنی کی پروفائل کو بھی واضح کرنا ہوتا ہے کہ آیا کمپنی اندرون ملک کام کرے گی یا ’ایکسپورٹ اوریئنٹڈ‘ ہو گی۔
دوسری جانب آئی ٹی کے شعبے سے ہٹ کر ملک کی برآمدات میں شامل ہونے کے لیے درآمدی شعبے میں شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی حکومت نے درآمدی شعبے کے لیے قدرے آسان کاروباری پالیسیاں تشکیل دی ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری یا کسی بھی شعبے میں برآمدات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے متعلقہ کمپنی کو اپنے ایریا (ایکسپورٹ یا نان ایکسپورٹ) میں رجسٹر کروا کر مصنوعات کی برآمد ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
نوجوان ایکسپورٹر ارزش اعظم کے خیال میں برآمدی شعبے میں نوجوانوں کے لیے سب سے آسان اور منافع بخش شعبہ آئی ٹی کا ہے اور آئی ٹی کی برآمدات میں نوجواںوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔
آئی ٹی ایکسپورٹس کے لیے کمپنی رجسٹر کروانا ضروری نہیں ہے، رجسٹرڈ یا نان رجسٹرڈ دونوں ہی صورتوں میں نوجوان بیرون ملک آئی ٹی کی سروسز فراہم کر سکتے ہیں۔

رجسٹرڈ کمپنیوں کو حکومتی سطح پر زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ارزش اعظم نے بتایا کہ پاکستان دنیا کی تیسری بڑی فری لانسنگ کی مارکیٹ ہے اور ملک میں انٹرنیٹ کی سروسز بھی اتنی اچھی ہیں کہ آپ آئی ٹی کی مختلف سروسز بیرون ممالک فراہم کر سکتے ہیں۔ 
’نوجوانوں کے پاس اگر کوئی بھی ڈیجیٹل سکل ہو چاہے وہ گرافک ڈیزائنگ، سافٹ ویئر انجنئیرنگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ وغیرہ تو اِسے آن لائن پلیٹ فارمز پر جا کر فروخت کیا جا سکتا ہے۔‘
ارزش اعظم کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کئی ایسے نوجوانوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ایسی چھوٹی خدمات کے ذریعے اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور آج وہ اپنی کمپنیوں کے مالک ہیں۔‘
ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی مصنوعات بیرون ممالک بھیجنے والے نوجوان ایکسپورٹر کاشف حسین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے برآمدی شعبے میں خاصی صلاحیت موجود ہے تاہم ملک میں زیادہ توجہ صرف مقامی سطح کے کاروبار کو ہی دی جاتی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کے دوران کاشف حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی کئی مصنوعات ہیں جن کی عالمی ممالک میں بہت ڈیمانڈ ہے، اگر نوجوان مخصوص شعبوں کا انتخاب کر کے برآمدات میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو اس میں وہ ضرور کامیاب ہوسکتے ہیں۔ 
ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد کے طریقہ کار پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ شعبہ پاکستان کی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے، تاہم حکومت ماضی کے اندر اسی شعبے کو سبسڈائز نرخوں پر بجلی اور گیس فراہم کرتی رہی ہے تاہم اس وقت یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔

ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں بھی نوجوان کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’ٹیکسٹائل کی مخلتف اقسام کے کاروبار کا آغاز کرنے کے بعد اُسے صرف برآمدات کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف زیادہ منافع ملے گا بلکہ ساتھ ہی ملک کو زر مبادلہ کی صورت میں فائدہ بھی حاصل ہو سکے گا۔‘
انہوں نے کھیلوں کی برآمدات کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں کھیلوں کی مصنوعات تیار کرنے والا ایک نمایاں ملک سمجھا جاتا ہے بالخصوص فٹبال اور کرکٹ کے حوالے سے پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

شیئر: