’مائی لَو مائی ڈریم‘، ڈیرہ غازی خان کی تین کم سن لڑکیاں جو انڈیا جانا چاہتی تھیں
’مائی لَو مائی ڈریم‘، ڈیرہ غازی خان کی تین کم سن لڑکیاں جو انڈیا جانا چاہتی تھیں
بدھ 2 اکتوبر 2024 10:03
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
تین لڑکیاں لڑکوں کے بھیس میں لاہور ریلوے سٹیشن سے واہگہ انڈیا جانا چاہ رہی تھیں۔ فوٹو: ریلوے پولیس
لاہور ریلوے سٹیشن پر شام کے وقت تین کم سن نوجوان لڑکے ایک شخص سے بات چیت کر رہے تھے۔ یہ منظر پلیٹ فارم پر کھڑے ایک پولیس کانسٹیبل شاہنواز کے لیے تھوڑا عجیب تھا۔
کانسٹیبل کو کبھی شک پڑتا کہ ان تینوں نوجوانوں میں کوئی قدر مشترک ہے۔ ان کی عمریں 11 سے 14 سال کے قریب تھیں۔ تاہم کانسٹیبل کو کبھی یہ بھی شک پڑتا کہ شائد وہ لڑکے نہیں لڑکیاں ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کانسٹیبل شاہنواز نے بتایا کہ ’میں ان کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا۔ اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ جب وہ اس اجنبی شخص سے بات کر رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ انہیں کسی بات پر قائل کر رہے ہیں۔ اور وہ لڑکے کبھی مان رہے ہیں اور کبھی نہیں تو پھر میں نے مداخلت کا فیصلہ کیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ اجنبی شخص ان کو کراچی لے جانے کی آفر کر رہا تھا۔‘
کانسٹیبل کے پہنچنے پر وہ اجنبی شخص رفو چکر ہو گیا تاہم یہ عقدہ کھلا کہ یہ تینوں نوجوان اصل میں لڑکے نہیں بلکہ بھیس بدلے لڑکیاں ہیں جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے۔
کانسٹبل نے اپنے افسران کو خبر کی اور تینوں کو ریلوے سٹیشن میں موجود چوکی پر لایا گیا اور لیڈی پولیس بھی طلب کر لی گئی۔
ریلوے پولیس کے اے ایس آئی فاروق اشرف بتاتے ہیں کہ ان لڑکیوں کی کہانی دماغ ہلا دینے والی تھی۔
’ان سے ہمیں ایک موبائل فون ملا جس کا پاسورڈ تھا ’مائی لو مائی ڈریم۔‘ ایک سو روپے کا نوٹ تھا۔ انڈیا اور ساؤتھ افریقہ کا ایک نقشہ تھا۔ ہمیں انہوں نے بتایا کہ وہ واہگہ بارڈر سے پیدل انڈیا جانا چاہتی تھیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’بظاہر یہ کہانی ناقابل یقین تھی۔ لیکن جو بیان انہوں نے ہمیں دیا ہے اور ہم نے جو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے وہ یہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے متاثر تھیں اور انہیں لگتا تھا کہ وہ انڈیا اور پھر ساؤتھ افریقہ جا کر چکا چوند قسم کی زندگی کا آغاز کریں گی۔‘
ریلوے پولیس نے تینوں لڑکیوں سے ان کے گھر کے ایڈریس معلوم کیے تو پتا چلا کہ وہ ایک سرکاری سکول میں ساتویں جماعت کی کلاس فیلوز تھیں جو اپنے بھائیوں کے کپڑے پہن کر گھر سے نکلی تھیں۔ ان سے دو قینچیاں بھی برآمد ہوئیں جس سے انہوں نے اپنے بال کاٹے تھے۔
تنیوں لڑکیوں سے ایڈریس لے کر جب ڈیرہ غازی خان کے پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ان کے اغوا کا مقدمہ پہلے ہی وہاں درج ہو چکا ہے اور ان کے گھر والے اور پولیس انہیں ڈھونڈ رہی ہے۔
ترجمان ریلوے پولیس کے مطابق جب تمام گتھیاں سلجھ گئیں اور اس موبائل فون سے بھی ایسا کوئی شائبہ نہیں ملا کہ وہ کسی ’بیرونی‘ مدد سے یہ سفر کر رہی تھیں تو پھر ان کے والدین اور متعلقہ پولیس کو بلوا لیا گیا اور والدین کے سامنے انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ تینوں بس کے ذریعے ڈیرہ غازی سے لاہور پہنچی تھیں۔ جب انہیں انڈیا جانے کا راستہ سمجھ نہیں آیا تو وہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر آ گئیں جہاں سے ایک شخص نے انہیں کراچی جانے کا آئیڈیا دیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس پر عمل درآمد ہوتا پولیس کی مداخلت سے صورت حال بدل گئی۔