Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شناختی کارڈ ہی صحت کی شناخت،‘ کیا پاکستان میں ہیلتھ کا نیا نظام بھی بیوروکریسی کی نذر ہو جائے گا؟

اب ہر شہری کا شناختی کارڈ ہی اُس کا ہیلتھ ریکارڈ بن جائے گا (فائل فوٹو: اے پی پی)
مریض چاہے پہلی بار ہسپتال جائے یا دوسری بار، ہر مرتبہ اُسے نئے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں۔ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال جانے کی صورت میں بھی سارا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔
تاہم اب ہر شہری کا شناختی کارڈ ہی اُس کا ہیلتھ ریکارڈ بن جائے گا، جس کے ذریعے شہریوں کے طبی ریکارڈ کو محفوظ اور منظم رکھا جا سکے گا۔
اب نہ صرف ہسپتالوں کے پاس یہ معلومات موجود ہوں گی بلکہ شہری خود بھی اپنی صحت کی صورت حال سے باخبر رہ سکیں گے۔
وزارتِ صحت پاکستان کے ترجمان ساجد شاہ کے مطابق ملک میں صحت کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے دو اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’ان میں ایک ہر مریض کے لیے ایک مستقل ایم آر نمبر (میڈیکل ریکارڈ نمبر) کا اجرا اور دوسرا ایک جامع ٹیلی میڈیسن نظام کا قیام ہے۔‘
’اس نظام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری ایک مرکزی ڈیجیٹل ریکارڈ کے ساتھ منسلک ہو تاکہ وہ جہاں بھی علاج کے لیے جائے اُس کی  پرانی طبی معلومات متعلقہ ڈاکٹر کو فوری طور پر دستیاب ہوں۔‘
ٹیلی میڈیسن کی اہمیت اور موجودہ چیلنجز
ساجد شاہ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب مریض مختلف ہسپتالوں یا کلینکس کا رُخ کرتے ہیں تو انہیں ہر بار نئے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز کو اُن کی میڈیکل ہسٹری تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے نہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ علاج بھی مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔‘
مرکزی میڈیکل ریکارڈ نمبر کیوں ضروری ہے؟
ساجد شاہ نے مزید بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ مریض کا شناختی کارڈ نمبر یا ایم آر نمبر اُس کی مکمل میڈیکل ہسٹری کے ساتھ منسلک ہو۔‘
’جب بھی مریض کسی ہسپتال یا کلینک جائے تو ڈاکٹر باآسانی جان سکے کہ مریض نے پہلے کن ڈاکٹروں سے علاج کرایا اور اُسے کون سی بیماریاں لاحق رہیں؟‘
نادرا کے ذریعے ڈیٹا انضمام
’یہ پورا نظام نادرا کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ ہر شہری کا ایک مربوط قومی میڈیکل ریکارڈ تشکیل دیا جا سکے۔‘

حکام کے مطابق ’ہر مریض کے لیے ایک مستقل ایم آر نمبر کا اجرا کیا جا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک فوٹو:)

 ترجمان وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اس کے تحت ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بیٹھے ڈاکٹرز بھی مریض کی مکمل معلومات تک رسائی حاصل کر کے مؤثر تشخیص و علاج کر سکیں گے۔‘
ساجد شاہ کے مطابق اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے اور مستقبل میں جب یہ نظام مکمل طور پر فعال ہو جائے گا تو مریض کی میڈیکل ہسٹری خود بخود منتقل ہو گی اور غیر ضروری اور بار بار ٹیسٹ کروانے سے نجات ملے گی۔
عالمی معیار کے مطابق نظام کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک جدید، مربوط اور ڈیجیٹل طبی نظام کی اشد ضرورت تھی، جس میں ہر مریض کا مکمل ریکارڈ ایک مستقل ایم آر نمبر سے وابستہ ہو۔
’اس سسٹم کے تحت نہ صرف مریضوں کو بار بار ٹیسٹ کروانے سے نجات ملے گی، بلکہ ڈاکٹرز کو فوری اور درست معلومات بھی دستیاب ہوں گی جس سے علاج تیز، مؤثر اور کم خرچ میں ممکن ہو سکے گا۔‘
’یہ نظام انقلابی تبدیلی لائے گا‘
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر ناصر منیر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے متعارف کروایا گیا یہ نظام ایک جدید اور مؤثر قدم ہے جو اس وقت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے رائج ہے۔‘

’اب مریض جہاں بھی علاج کے لیے جائے گا اس کی مکمل میڈیکل ہسٹری دستیاب ہو گی‘ (فائل فوٹو: یونیسیف)

انہوں نے بتایا کہ اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریض جہاں کہیں بھی علاج کے لیے جائے گا اس کی مکمل میڈیکل ہسٹری چند لمحوں میں دستیاب ہو جائے گی۔
’پاکستان جیسے ملک میں جہاں مریض اکثر اوقات مختلف ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں اور اگر پُرانی رپورٹس ساتھ نہ ہوں تو انہیں دوبارہ مہنگے ٹیسٹ کروانا پڑتے ہیں، لہٰذا وہاں اس سسٹم کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر ناصر منیر کے مطابق ’یہ نظام نہ صرف تشخیص کو بہتر بنائے گا بلکہ مریض کا وقت، پیسہ اور وسائل بھی بچائے گا۔ یہ علاج تک محدود نہیں بلکہ فالو اپ اور مریض کی مجموعی نگہداشت کو بھی زیادہ مؤثر بناتا ہے۔‘
’پاکستان میں اس نظام کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں پریوینٹیو ہیلتھ کیئر یعنی بیماری سے قبل بچاؤ پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر یہ سسٹم مؤثر انداز میں نافذ ہو جائے تو ایک قومی سطح کا ہیلتھ ڈیٹا بیس تیار کیا جا سکے گا، جس سے معلوم ہو گا کہ کہاں کون سی بیماری عام ہے، اور حکومت صحت کی منصوبہ بندی بھی بہتر انداز میں کر سکے گی۔‘
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی اس نظام کو وقت پر اور مکمل طور پر نافذ کر پائے گی؟ کیونکہ ماضی میں کئی منصوبے بیوروکریسی اور نظام کی پیچیدگیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ناصر منیر نے کہا کہ ’یقیناً ہر نئی تبدیلی کے ساتھ چیلنجز بھی آتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی پرانے نظام کو بدلنے والی ہو۔‘
’تاہم اگر حکومت کی نیت صاف ہو، حکمتِ عملی واضح ہو اور سیاسی عزم موجود ہو تو یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے یہ نظام کامیابی سے اپنایا ہے، پاکستان بھی یہ کر سکتا ہے۔‘

 

شیئر: