انڈیا میں پاکستانی ڈراموں پر پابندی، ’سافٹ ڈپلومیسی‘ کو دھچکا؟
انڈیا میں پاکستانی ڈراموں پر پابندی، ’سافٹ ڈپلومیسی‘ کو دھچکا؟
جمعرات 8 مئی 2025 5:33
انعم قریشی -اردو نیوز، اسلام آباد
ڈرامہ ’زندگی گلزار ہے‘انڈیا میں اس قدر مقبول ہوا کہ ’زی ٹی وی‘ نے اسے نشر کیا (فوٹو: سکرین گریب)
انڈیا میں پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ڈراموں نے دونوں ممالک کے عوام کوایک دوسرے کے قریب لانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی باضابطہ سفارتکاری سے بھی ممکن نہیں ہو سکا۔
حقیقت کے قریب تر کہانیاں، غیر بناوٹی انداز میں مکالمے، خاندانوں کے روایتی مسائل، ایک عام انسان کے تعلقات اور شادیوں کے حوالے سے مختلف پلاٹس پر مبنی پاکستانی ڈراموں کو خاصی پذیرائی حاصل ہے۔
انڈین ڈرامے اپنی غیرضروری طوالت، حقیقت سے دور کہانیوں اور گلیمر کی بھرمار کی وجہ سے اپنی آڈینس بہت حد تک کھو چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ’ڈش ڈش دھوم تانا نا نا‘ اور ’ڈھشوم ڈھشوم‘ کے بیک گراؤنڈ ساؤنڈ کے ساتھ بننے والے ان ڈراموں سے عوام اب بور ہو چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں یوٹیوب اور آن لائن پلیٹ فارمز پر پاکستانی ڈراموں کے انڈین شائقین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ہم پاکستانی فنکاروں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس سے بھی لگا سکتے ہیں جہاں انہیں فالو کرنے والے صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ انڈین صارفین بھی ہیں۔
انڈیا میں پاکستانی فنکاروں کی بڑھتی ہوئی فین فالوؤنگ کی وجہ یہ پاکستانی ڈرامے ہی ہیں جنہیں وہ نہ صرف باقاعدگی سے یوٹیوب پر فالو کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ان پر تبصرے بھی کرتے ہیں۔
ڈرامہ ’ہم سفر‘ کسے یاد نہیں، فواد خان اور ماہرہ خان کو اس ڈرامے کی بدولت انڈیا میں بھی اپنے ڈھیروں مداح مل گئے تھے۔
اسی طرح ڈرامہ ’زندگی گلزار ہے‘انڈیا میں اس قدر مقبول ہوا کہ انڈین چینل ’زی ٹی وی‘ نے اسے نشر کیا۔ گذشتہ سال اے آروائی ڈیجیٹل کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’کبھی میں کبھی تم‘ بیک وقت پاکستان اور انڈیا میں یوٹیوب پر ٹاپ ٹرینڈنگ رہا جس میں فہد مصطفیٰ اور ہانیہ عامر کی کیمسٹری کو بے حد پسند کیا گیا۔
ڈرامہ ’ہم سفر‘ کسے یاد نہیں، فواد خان اور ماہرہ خان کو اس ڈرامے کی بدولت انڈیا میں بھی اپنے ڈھیروں مداح مل گئے تھے (فوٹو: سکرین گریب)
یہی نہیں بلکہ انڈیا میں کچھ پاکستانی ڈراموں کا ری میک بھی بن چکا ہے جیسے کہ سونی ٹی وی سے ’کچھ تو لوگ کہیں گے‘ کے نام سے ڈرامہ بنا جس کی کہانی پاکستان کے مقبول ترین ڈرامے ’دھوپ کنارے‘ سے ملتی جلتی تھی۔
ہمایوں سعید اور عائزہ خان کے مشہور ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ کا ری میک ’کامنا‘ کے نام سے بنا۔ لیکن یہ ڈرامے عوام کی کچھ خاص توجہ حاصل نہ کر سکے کیونکہ اوریجنل پاکستانی ڈراموں نے جو اثر چھوڑا وہ کافی گہرا تھا۔
پہلگام حملے کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستانی یو ٹیوبرز اور نجی ٹیلی ویژن چینلز کے یوٹیوب چینلز کو اپنے ملک میں بلاک کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی شوبز شخصیات پر پابندی اور ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹس کو بھی بلاک کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی انڈین صارفین حکومت کے اقدام سے نالاں نظر آ رہے ہیں کہ اب وہ اپنے پسندیدہ پاکستانی ڈرامے نہیں دیکھ سکیں گے۔
انڈین مداح پاکستانی چینلز کے پیجز کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ایک ایرر ملتا ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ ’قومی سلامتی یا امن عامہ سے متعلق حکومت کے حکم کی وجہ سے یہ مواد اس ملک میں فی الحال دستیاب نہیں ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انڈین مداح اپنی والدہ سے پوچھتی ہیں کہ پاکستانی ڈرامے بند کر دیے گئے ہیں اب آپ اپنی زندگی میں کیا کریں گی جس پر وہ کہتی ہیں کہ ’بہت مشکل ہے، مجھے تو نانی ماں کی فکر ہو رہی ہے کہ ان کی زندگی کیسے گزرے گی۔‘
پاکستانی صارفین نے انڈین فینز کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
کیا دونوں طرف دوریاں بڑھیں گی؟
پاکستان کی معروف اداکارہ عفت عمر سمجھتی ہیں کہ انڈیا میں پاکستانی ڈراموں کی پذیرائی کی وجہ دونوں طرف کے عوام کا ایک طرح کے جذبات، ایک جیسی ثقافت، رویّوں اور احساسات میں مماثلت ہے۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی ڈرامے فیملی انٹرٹینمنٹ ہوتے ہیں، سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر یہ ڈرامے دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان ڈراموں میں انسانی جذبات کی بہترین عکاسی ہوتی ہے، کہانی میں معنویت ہوتی ہے، اور پھر یہ کہ یہ ڈرامے 100،100 اقساط پر مشتمل نہیں ہوتے اس لیے انڈیا میں بھی پسند کیے جاتے ہیں۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا پابندی کے اقدام سے دونوں طرف کے عوام میں دوریاں بڑھیں گی، تو عفت عمر کا جواب کچھ یوں تھا: ’بارڈر کے علاوہ ان دونوں ممالک کے عوام میں کوئی فرق نہیں۔ یہ کبھی ایک دوسرے سے دور تھے ہی نہیں۔ برصغیر کے لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے جذبات، احساسات، خوشی، غم، ہنسنا، رونا سب ایک جیسا ہے اس لیے یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جیسا کہ کہا جاتا ہے محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو اس قسم کی پابندیاں چلتی رہیں گی بلکہ مجھے تو خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے اس سے پہلے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ انڈیا کے لیے ہمارے ڈرامے اتنی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کہ انہیں پابندی ہی لگانی پڑی۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ فنکاروں کو اس طرح کی صورتحال میں کتنا ذمہ داری سے ردعمل دینا چاہیے، عفت عمر نے کہا کہ ہر انسان اپنے خیالات اور رائے کے اظہار میں آزاد ہے اس لیے کسی بھی فنکار کے بیان کو اُس کا ذاتی خیال ہی سمجھنا چاہیے، اسے اتنا زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔‘