طائف گورنریٹ کے عین وسط میں واقع وادی قرن میں ایک شخص کے وژن نے اس مقام کو سعودی عرب کے تاریخی لینڈ مارک میں سے ایک بنا دیا ہے۔
اسے ’دا نیشنل ہسٹوریکل پیلس فاراسلامک سویلائیزیشن‘ یا ’اسلامی تہذیب کے لیے قومی تاریخی محل‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
نجران کا تاریخی محل، علاقے کی تاریخ اور ورثے کا گواہNode ID: 877082
اس سائٹ کی تعمیر ماجد الثابتی نے کی ہے۔ اس میں اسلامی تاریخ اورعصری ڈیزائن کا امتزاج ہے جس کی جڑیں سات کے عدد سے متعلق علامت سے خاص ربط رکھتی ہیں۔
عرب نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ماجد الثابتی نے بتایا ’سائٹ کی تعمیر میں جس عدد کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ قرآنِ پاک کی کئی آیات کے کامل اور مکمل علامت ہے، جن میں سات زمینیں اور سات آسمان شامل ہیں۔
یہ پروجیکٹ ماجد الثابتی کی مضبوط قوتِ ارادی کے باعث وجود میں آیا۔ انھیں اپنے خواب کی تعبیر مل جانے کا یقین تھا۔ انھوں نے اپنی تمام کوششیں، وقت اور توانائی اس سائٹ کو زندہ کرنے میں لگا دی۔
70 ہزار سکوائر میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس محل کے اندر سات عجائب گھر ہیں، سامنے کے سات حصے ہیں، سات ہی بڑے دروازے ہیں۔ اس کی تعمیر میں سات ملین پتھر استعمال ہوئے جنہیں خود الثابتی نے کاٹ کر محل کی تعمیر کی۔
یہاں کے عجائب گھروں میں نمایاں ثقافتی اور تعلیمی تجربے کا احساس ہوتا ہے۔ اس پر چسپاں چیزیں اسلامی فنِ تعمیر، مقامی ورثے، پلاسٹک آرٹ، مجسمہ سازی، فلکیات، فوجی تاریخ کی اسناد اور مملکت کے متحد ہونے کا نایاب مجموعہ ہیں۔

زراعت سے متعلق میوزیم میں ان بیجوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا ذکر قرآنِ پاک میں ہے۔
محل میں 600 سکوائر میٹر کے رقبے کا فرش ہے جسے رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا ہے۔ اس کا محرک ایک تاریخی آرٹ ہے جو یونیسکو کی جانب سے تسلیم شدہ ناقابلِ محسوس ثقافتی ورثہ ہے۔
ماجد الثابتی کہتے ہیں کہ انھوں نے سائٹ کی تعمیر میں استعمال ہونے والی پتھروں کو خود کاٹا ہے، انھیں شکل دی ہے اور اس محل میں لگایا ہے۔
’اس پروجیکٹ کی روحِ روں وہ محنت ہے جو ہاتھوں سے کی گئی ہے۔ یہاں کا ہر گوشہ میری کوششوں، میرے نقش او خود کو اس منصوبے کے لیے وقف کردینے کی گواہی دیتا ہے۔‘
تعمیر کے لیے ماجد الثابتی نے مملکت میں ہر جگہ سے سات قسم کے پتھر حاصل کیے جن میں سنگِ سیاہ، سنگِ مردہ، اور دیگر منجمد بھُربھرے ڈھیلے استعمال ہوئے ہیں۔

ہاتھ سے بنے ہوئے اس محل کے سامنے کے حصے اور فرش پر پتھروں کی حسنِ ترتیب دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ الثبیتی کی نظر کس حد تک چھوٹی چھوٹی تفصیل پر ہے۔
سدو فن اور پتھر کاری میں سات رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے جو مملکت کی متنوع جغرافیائی خصوصیات کا عکس ہے۔
اس محل کے نمایاں پہلوؤں میں عباسی طرزِ تعمیر کا ایک مینار ہے جبکہ خلیفہ ہارون رشید کی اہلیہ زبیدہ کے احترام میں پانی کا فوارہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
رصد گاہ سے نئے چاند کو دیکھنے کا انتظام ہے اور سعودی عرب کے میگا پروجیکٹس کی آرائشی کندہ کاری ہے جن میں نیوم اور’دا لائن‘ شامل ہیں۔
یہاں مملکت کے فوجی سازوسامان کو، جس میں لڑاکا جیٹ اور پانی کے جہاز شامل ہیں، نقش کیا گیا ہے۔

الثابتی نے اس محل کے قریب وادیِ قرن کے کناروں کے ساتھ ساتھ سات سو میٹر کا سپورٹس ٹریک بھی بنایا ہے۔ یہاں عربی نسل کے گھوڑوں کا اصطبل، بابِ مکہ کا نمونہ، طائف گیٹ اور شاہ عبدالعزیز اسلامی گیٹ بھی ہیں جن کے لیے پتھروں کو غارِ ثور، غارِ نور اور احد کے پہاڑ سے لیا گیا ہے۔
الثابتی کے بقول ان کا مقصد اس محل کو ثقافتی اور تعلیمی منزلِ مقصود بنانا ہے جہاں مملکت کی تاریخ اور ورثے کو دھوم دھام سے یاد کیا جا سکے۔
ماجد الثابتی کہتے ہیں: ’ہماری تہذیب اور وراثت عظیم ہے جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں سے مل جاتی ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے بہترین انداز میں دنیا کو دکھائیں۔ اور یہ محل تو ایک ابتدا ہے۔‘