نریندر مودی ایک ایسے فکس میں ہیں جہاں سے نکلنا اب ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے جوابی حملے میں ان کا دفاعی نظام ایکسپوز ہونے کے بعد اب ان کا سیاسی وجود دوراہے پر کھڑا ہے۔
سیز فائر پر عمل کرتے ہوئے شانتی کا پرچار کرتے ہیں تو بی جے پی کا مرکزی حلقہ انتخاب شدید متاثر ہوتا ہے۔ مسلسل جارحیت اور پاکستان مخالف جنگی حکمت عملی اخیتار کرتے ہیں تو بدلے میں ابھرتی اکانومی اور بین الاقوامی طاقتوں کی ناراضی مول لینا پڑتی ہے۔ مانگ میں سندرو بھرنے کی خواہش لے کر موصوف اور ان کے پیچھے لگڑ بگڑ بنا گودی میڈیا دو چار روز تو خوب گرجا برسا مگر پھر کیا ہوا؟ جنرل بخشی، میجر گور اور ارناب گوسوامی کے شبدوں سے جھاگ اور زہر بہہ رہا تھا، یہ تو بات سمجھ آتی تھی لیکن اس پاگل پن کا پرچار اور جنگی جنون اس قدر ہانکا گیا کہ برکھا دت جیسی صحافی بھی فیک نیوز کی دوڑ میں بازی لے گئیں۔
مزید پڑھیں
-
آگے کنواں پیچھے کھائی مگر کس کے لیے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 872736
-
المیہ سر زمینِ پاکستان کا ہے، اجمل جامی کا کالمNode ID: 883504
دن رات چوبیس گھنٹے جنگی سائرن کے بیک گراونڈ کیساتھ سٹوڈیوز میں تیار کی گئے ورچوئل جنگی سیٹ کئی ہفتوں سے انڈین جنتا کے انگ انگ میں سمو چکے۔
رہی سہی کسر آٹھ ہزار سے زائد اکاؤئنٹس کی انڈیا میں بندش اور اب ترکیہ اور چین کے نیوز آوٹ لیٹس کی بندش سے پوری کر دی گئی۔ گویا مودی سرکار نے عوام کو سزا دینے کے لیے انہیں گودی میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اس پاگل پن اور فیک نیوز کی بھر مار میں آپ ہی بتلائیں مودی کیسے اور کیونکر فہم و فراصت اور شانتی کا رستہ اختیار کریں؟ دس روزہ ترنگا یاترہ کا اعلان کر کے انہوں نے خاکسار کے ان خدشات کو تقویت بخشی ہے کہ وہ اب خودساختہ جنگی چال کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں۔
انہیں گھمنڈ تھا، مان تھا کہ حالیہ چند برسوں میں دفاعی نظام میں انڈین سینا نے خاصی اپگریڈیشن کی ہے۔ 2018 سے اب تک دو بار پارلیمانی رپورٹس میں سرکار کو بتایا گیا تھا کہ ان کے ہاں ونٹیج اسلحہ ہے اور جدید اسلحہ آٹھ سے اٹھارہ فیصد تک ہی ممکن ہو پایا ہے۔ اسی بیچ رفال آئے، ایس 400 آیا اور اسرائیلی ہارپ ڈرون آئے۔ انڈین قیادت کا ماننا تھا کہ پاکستان کے پاس ان کی نئی ٹیکنالوجی اور دفاعی زور کا جواب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا نے حملے سے پہلے امریکہ کو باور کروایا تھا کہ اس دفعہ ہم پاکستان کو خود سبق سکھائیں گے۔ آپ کو درمیان میں نہیں آنا چاہیے۔ لیکن جب پاکستان نے انڈیا پر جوابی حملہ کیا تو پھر نتائج دیکھتے ہوئے انڈیا خود امریکہ تک پہنچا۔

ذمہ دار سکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ انڈین حملے کے بعد انڈیا نے رابطہ کیا، سیز فائر کی خواہش کا اظہار کیا لیکن تب ملکی قیادت نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ اب سیز فائر جواب کے بعد ہی دیکھا جائے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس کو سننے کا اتفاق ہوا، وہ فرما رہے تھے کہ انڈیا کو لگتا تھا کہ پاکستان اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا، لیکن پاکستان کا انڈیا کے جہازوں کو گرانے نے بہت گہرے اثرات پیدا کیے۔ پاکستان کا جواب انڈیا سمیت دنیا بھر کے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس سسٹم کو جام کرنے اور انڈین ایئر بیسز سے اڑنے والے جہازوں کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب انڈیا مجبو ر ہوا، امریکہ سے رابطہ ہوا اور اس بیچ برطانیہ اور سعودی عرب نے سیز فائر کا گراؤنڈ ورک تیا رکیا۔
لیکن سیز فائر کے بعد کیا ہوا؟ مودی جی نے قوم سے خطاب کیا، امریکی مداخلت کو مسترد کرنے کا تاثر دیا، پانی بند کرنے کا اعادہ کیا، حملے کو نیو نارمل قرار دیا، ساتھ ہی اگلے روز آدم پور بیس جا کر بھی انہی وچاروں کو رپیٹ ٹیلی کاسٹ کیا۔ اور اس بیچ دس روز ترنگا یاترہ کا اعلان کر دیا۔ گویا مودی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑا لیڈر بننے اور اکانومی پر توجہ دینے کی بجائے، سیاسی اکھاڑے میں بی جے پی اور ہندوتوا کی مزید تشفی کی جانب ہی رجوع کیا۔

بالفرض یہ محض آپٹیکس ہی ہوں تب بھی یہ اب ناممکن ہوگا کہ گودی میڈیا کے ہوتے ہوئے ترنگا یاترہ کیساتھ اور ان وچاروں کی گونج میں مودی جنگی جنون کو شانت رکھیں۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی مودی سے سوال پوچھ رہی ہیں، اس کا جواب دینے کے لیے انہیں گج وج کے اپنی خود ساختہ فتوحات اور مزید جارحیت کا پرچار کرنا پڑے گا۔ اس خطے میں جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ لیکن اب کے بار براہ راست حملے کی بجائے مودی کی توجہ ایل او سی اور بلوچستان میں دہشتگردی پر مرکوز ہوگی۔ پاکستانی سرپرائز کے اثرات کچھ برس کیلئے دیر پا ثابت ہونگے۔