Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی ایئرپورٹ پر کسٹمز کی کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کی غیرملکی کرنسی برآمد

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک ہی روز کرنسی کی بیرونِ ملک سمگلنگ کے دو غیر معمولی واقعات نے سکیورٹی اداروں کو پھر چونکا دیا ہے۔
کسٹمز حکام نے خفیہ اطلاع اور مشتبہ نظر آنے پر دو مختلف پروازوں کے مسافروں سے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کی غیرملکی کرنسی برآمد کر لی۔
ان مسافروں میں ایک انڈونیشیائی شہری اور ایک پاکستانی باشندہ شامل ہیں۔ 
یہ صرف دو افراد کی کہانی نہیں بلکہ یہ اس پیچیدہ نظام کی ایک اور پرت ہے جو کئی برسوں سے خاموشی سے متوازی مالی نیٹ ورکس کو سہارا دیتا آیا ہے۔
اردو نیوز کو حکام سے ملنے والی معلومات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ دونوں گرفتاریاں معمولی چیکنگ کے دوران نہیں ہوئیں، بلکہ ایئرپورٹ پر موجود کسٹمز حکام کی کئی روز کی خفیہ نگرانی کے بعد یہ کارروائیاں عمل میں آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکام کو شبہ تھا کہ رمضان اور عید کے بعد بیرون ملک رقوم کی غیر قانونی ترسیل میں تیزی آرہی ہے اور اس کا مرکز جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے۔
پہلی گرفتاری پرواز ایف زیڈ 332 پر سوار ایک انڈونیشیائی شہری کی ہوئی، جو دبئی کے راستے جکارتہ جا رہا تھا۔ اس کے بیگ سے خاص مہارت سے چھپائے گئے 27 ہزار امریکی ڈالر ملے۔
یہ رقم پاکستانی کرنسی میں قریباً 75 لاکھ روپے بنتی ہے۔ حکام کے مطابق مسافر طویل عرصے سے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان سفر کر رہا تھا، لیکن اس بار اس کے بیگ میں موجود غیر معمولی وزن اور اندرونی تہوں نے حکام کو چونکا دیا۔
ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ اس مسافر کی سرگرمیاں مشکوک ہیں، لیکن جب سکیننگ کرنے پر خفیہ خانہ سامنے آیا تو ہمیں یقین ہو گیا۔
تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ کراچی کے ایک مقامی منی ایکسچینجر سے وابستہ افراد سے ملاقات کر چکا تھا۔
اسی روز گلف ایئر کی پرواز جی ایف 751 کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پاکستانی مسافر محمد عرفان اللّٰہ سے 95 ہزار ریال برآمد ہوئے، جو بیگ کی نچلی تہہ میں پلاسٹک شیٹ کے نیچے لپیٹ کر رکھے گئے تھے۔ 
بتدائی تفتیش میں ملزم نے ان سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا، لیکن اہلکاروں کو شبہ ہے کہ وہ کسی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
حراست میں لیے گئے مسافروں کے پاس کرنسی کی مقدار اس حد سے کہیں زیادہ تھی جو پاکستانی قوانین کے مطابق بیرون ملک لے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے قوانین کے مطابق کوئی بھی مسافر پاکستان سے بیرون ملک سفر کرتے وقت زیادہ سے زیادہ 5 ہزار امریکی ڈالرز یا اس کے مساوی کرنسی لے جا سکتا ہے۔
 اس حد سے تجاوز کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، جس میں کرنسی ضبط کرنے کے علاوہ جُرمانہ اور مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔
کسٹمز حکام کا کہنا ہے کہ ’دونوں کارروائیاں ایئرپورٹ کے ڈیپارچر لاؤنج میں تعینات شفٹ ون کے عملے کی جانب سے کی گئیں۔‘
ترجمان کے مطابق دونوں افراد کو ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد مزید تفتیش کے لیے کسٹمز انویسٹی گیشن ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
کرنسی کی جنگ
پاکستان میں کرنسی کی سمگلنگ کوئی نیا مسئلہ نہیں، لیکن حالیہ کارروائیاں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب ملک معاشی دباؤ کا شکار ہے، ڈالر کی قدر میں اُتار چڑھاؤ ہو رہا ہے، اور حکومت ہنڈی اور حوالہ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی راستے جب مہنگے یا پیچیدہ بنا دیے جائیں، تو غیر قانونی چینلز پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ ایئرپورٹس ان نیٹ ورکس کے لیے ہائی وے بن چکے ہیں۔ ایک دن میں اگر ڈیڑھ کروڑ روپے برآمد ہوئے تو سوچیں ہر ہفتے کتنا پیسہ باہر جا رہا ہو گا؟
یہ پہلی بار نہیں
یہ پہلا موقع نہیں جب کراچی ایئرپورٹ سے اتنی بڑی مقدار میں غیرملکی کرنسی پکڑی گئی ہو۔ اردو نیوز کو حاصل ریکارڈ کے مطابق سال 2023 میں لاہور ایئرپورٹ سے ایک مسافر کے بیگ سے 35 ہزار ڈالرز برآمد کیے گئے تھے، جو دبئی جا رہا تھا۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک خاتون مسافر کے سامان سے لاکھوں روپے مالیت کی غیرملکی کرنسی پکڑی گئی تھی۔
پردے کے پیچھے اصل نیٹ ورک کون؟
کسٹمز حکام اب ان دونوں مسافروں سے جُڑے مقامی رابطوں اور ممکنہ حوالہ نیٹ ورکس کی چھان بین کر رہے ہیں۔
ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ کیریئرز ہوتے ہیں، اصل مہرے وہ افراد ہیں جو انہیں تیار کرتے،کرنسی دیتے اور واپسی پر ’خدمت‘ کا معاوضہ دیتے ہیں۔ زیادہ تر مسافروں کو صرف جُزوی رقم کا علم ہوتا ہے۔
کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟
کسٹمز، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کے درمیان اب کرنسی ٹریول الرٹس پر فوری رابطے کے لیے نیا پروٹوکول بھی تشکیل دیا جا رہا ہے جس کے تحت مشکوک مسافروں کی فہرست، سفری تاریخ، اور ٹریول ایجنٹ کا ڈیٹا ایئرپورٹ پر پہلے سے موجود ہو گا۔
یہ واقعات صرف قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پاکستان کے مالیاتی نظام، معیشت اور قومی سلامتی سے جُڑے سنجیدہ سوالات ہیں۔ 
جب کرنسی غیر قانونی طریقے سے باہر جاتی ہے، تو ملک کے اندر سرمایہ کاری، ترقی اور استحکام کا توازن بھی متاثر ہوتا ہے۔

شیئر: