عرب نیوز کے مطابق حدود الشمالیہ میں موسم کے لحاظ سے زملوق کے کِھلتے ہی صحراؤں کا منظر بدل جاتا ہے۔ یہ علاقے کا سب سے جاذبِ نظر پھول ہے۔
کبھی یہ پھول ختم ہونے کے قریب تھے لیکن ان بوٹی دار پھولوں کو پھر سے زندگی مل گئی ہے۔
اس پھول کو نوویر یا زرد عریبیئن زملوق بھی کہتے ہیں جو بارش کے بعد بہت تیزی سے نمو پاتا ہے اور اس کی اونچائی 20 سینٹی میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔
شاخ سے دور رہ کر یہ پھول اپنے پتوں، روشن پیلے رنگ اور ڈیزی جیسے پھولوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور اس سے صحرا میں رنگوں کی بہار آ جاتی ہے۔
زملوق سے ایک مخصوص مہک نکلتی ہے جو شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ اس سے زرگُل پھولوں تک پہنچتا ہے اور ماحولی توازن بھی برقرار رہتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق زملوق، جسے نوویر یا زرد عریبیئن بھی کہتے ہیں نہ صرف مویشیوں اور جنگلی حیات کے لیے چارے کے کام دیتا ہے بلکہ اس سے زمین بھی مستحکم رہتی ہے اور اس میں دراڑیں نہیں پڑتیں۔
پودے کی اونچائی 80 سینٹی میٹر تک پہنچ سکتی ہے (فوٹو: ایس پی اے)
عام طور پر یہ پھول سردیوں کے آخر میں کھلنا شروع کرتا ہے اور موسمِ بہار تک کھلتا ہے۔ صحرا کی زمین پر جیسے زرد قالین سا بچھا دیتا ہے۔ اس سے زمین کی زرخیزی بھی بڑھتی ہے اور مویشیوں اور یہ جنگلی حیات کے لیے انتہائی اہم خوراک کا باعث بھی ہے۔
جدہ یونیورسٹی میں محکمۂ ماحولیاتی سائنسز کے اسسٹنٹ پرفیسر غالیہ الجدعانی جو حیاتیات اور قدرتی ماحول کے ایک دوسرے پر ردِ عمل پر گہری نظر کہتے ہیں ’یہ سالانہ جڑی بوٹی ریتیلے میدانوں اور کھلی زمینوں میں پھلتی پھولتی ہے اور موسمِ بہار میں جوبن پر ہوتی ہے‘۔
انھوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ’ اس سے لائیوسٹاک کو خوراک ملتی ہے اور یہ حیاتیاتی نامیوں اور ماحول پر ایک دوسرے کے عمل اور ردِ عمل سے خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔‘
پھولوں کا ایک اور مقامی زمرہ جو جوبن پر آ کر حیران کن منظر پیش کرتا ہے اسے رمتھ کی جھاڑ کہتے ہیں۔ یہ خاص طور پر حدود الشمالیہ میں پایا جاتا ہے جیسے وادیِ عر عرعر۔ ان علاقوں میں حالیہ بارشوں اور طوفانوں نے اس پودے کی پھر سے اگنے میں مدد دی ہے جسے سے علاقے میں اس پھول کا دور دورہ ہے۔
عام طور پر یہ پھول سردیوں کے آخر میں کھلنا شروع کرتا ہے (فوٹو: ایس پی اے)
یہ پھول سدا بہار جھاڑی ہے جسے اس کے ماحولی نظام کو تحفظ دینے اور چراگاہوں کی قدر بڑھانے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحفظ کی کوششوں میں قدرتی ریزرو کا قیام شامل ہے جس سے اس پودے کو پھر سے پھلنے پھولنے میں مدد دی ہے جو اختتام کے قریب تھا۔ اس سدا بہار جھاڑی سے مملکت میں سبزے کی بہتات بھی ہوگی۔
یہ پودا ایک میٹر اونچا ہوتا ہے اور کئی مربع سکوائر میٹر تک پھیل سکتا ہے۔ اس کے پتے نمی کو محفوظ رکھتے ہیں جس سے یہ صحراؤں کے سخت حالات میں بھی پھلتا پھولتا ہے۔ اس پودے کے پتوں کو عام طور پر اونٹ کھاتے ہیں۔
اس میں فطری طور پر اونٹوں کے لیے نمک پایا جاتا ہے اور گھروں میں صفائی ستھرائی کی اشیا میں استعمال ہوتا ہے۔
جزیرہ نمائے عرب میں پھولوں کی ایک اور قسم کا نام مقامی طور پر زھرا ہے۔ اس کے پھول زرد رنگ کے ہوتے ہیں جو بڑے بڑے، نرم اور چوڑے پتوں والے ہوتے ہیں۔
مقامی پودوں کو محفوظ رکھنے کےلیے آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے (فوٹو: ایس پی اے)
یہ پودا ڈھیلی ریت اور صحرا کے اونچے بگولوں میں پھلتا پھولتا ہے۔ اس کی اونچائی 80 سینٹی میٹر تک پہنچ سکتی ہے اور اس کے ڈرامائی رنگ سے پورے کا پورا علاقے رنگوں سے بھر جاتا ہے۔
زھرا کے پتے، ستارے کی شکل کے ہوتے ہیں جن کی پانچ نازک پتیاں ہوتی ہیں جن کا رنگ گہرا سبز ہوتا ہے۔ سردیوں میں اس کے پھولوں سے صحرا زرد رنگ کے سمندر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ زھرا، صحرائی غزالوں کے لیے خوراک کا کام بھی کرتا ہے اور اس سے گھریلو جانوروں کے لیے چارہ بھی بنایا جاتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے دباؤ، چارے کے طور پر زیادہ استعمال اور شہروں کا پھیلاؤ ان پودوں کے پھر سے نمودار ہونے کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حکام اس مقصد کے تحت آگاہی مہم چلا رہے ہیں تاکہ ان مقامی پودوں کو محفوظ کیا جا سکے جس سے مملکت میں متوازن ماحول بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور قومی ورثہ بھی بچ سکتا ہے۔
زملوق سے ایک مخصوص مہک نکلتی ہے جو شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے (فوٹو: ایس پی اے)
ان اقدامات سے پانی کے وسائل پر زیادہ دباؤ ڈالے بغیر ماحولی توازن قائم رہے گا ، خشک سالی اور ویرانی سے بچنے کے لیے فطری قوتِ مدافعت پیدا ہوگی اور وسائل پر دباؤ ڈالے بغیر ایک متوازن ماحولی نظام بھی فراہم ہو جائے گا۔
الجدعانی کہتے ہیں ’یہ جنگلی پھول صرف زمین کے حسن اور صحراؤں کی سجاوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ ماحولیاتی، ثقافتی اور معاشی سطح پر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے قومی اقدامات کو برقرار رکھنے میں معاون بنتے ہیں جن سے قدرتی وسائل پر دباؤ کے بغیر متوازن ماحول مل جاتا ہے۔