Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام باتیں ہی خاص ہوجاتی ہیں: عامر خاکوانی کا کالم

عید سے قبل عیدی دے کر بہت سے لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے (فوٹو: چیرٹی نیوز)
ایک دانشور کی کہی بات یاد آئی، ’خیر کا کام کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کوئی لمبا چوڑا اہتمام کیا جائے، چھوٹے چھوٹے کاموں سے نیکی اور خیر آگے منتقل ہوسکتی ہے۔ آدمی سیکھنا چاہے تو اپنے آس پاس سے اس طرح کی بہت سی چیزیں سیکھ سکتا ہے۔ ہم نے خیر کی کئی باتیں اپنے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں سے سیکھیں۔‘
بات خوبصورت ہے، واقعی ہمیں کئی بار ایسے تجربات اور مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے، پلے باندھ لیے جائیں تو زندگی بھرکام دیتے ہیں۔ چھوٹی نظر آنے والی بات بھی ایسے میں آگے جا کر بڑی بن جاتی ہے۔ ایک خوبصورت واقعہ خاصا پہلے پڑھا تھا، دل کو چھو گیا۔ ایک آدھ بار ذکر بھی کیا۔
چند سال قبل رمضان سے ذرا پہلے ایک دوست نے میسج فارورڈ کیا، جس کے مطابق نئے سال کے مشہور نیو ائیر ریزولیوشن کے بجائے یہ کام یکم رمضان کو بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس صاحب نے لکھا، وہ کہنے لگے کہ میں تصور کر لیتا ہوں کہ سال یکم رمضان کو شروع ہوا اور اگلے سال 30 شعبان کو ختم ہوجائے گا۔ اسی حساب سے اپنے سال بھر کی کمٹمنٹس کر لیتا ہوں۔
یہ بات مجھے اچھی لکھی، رمضان ریزولیوشن کے عنوان سے کالم لکھا، ایک کتاب میں بھی اسے شامل کیا۔ دو چار سال تک ہر بار لکھتا رہا، پھر جب لکھا کہ وہی بات دُہرا رہا ہوں تو کالم تو نہ لکھا، بات البتہ مزے کی اور دلچسپ ہے۔
واقعی رمضان کو ایک پیمانہ بنا لیا جائے تو ایک طرح سے یہ نئے سال کا آغاز ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ عام طور پر یکم جنوری کو نیو ایئر ریزولوشن بناتے ہیں۔ ایسی عادات جن کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں۔
ایسی صحت مند باتیں جو زندگی کا حصہ ہونی چاہییں، نماز کی پابندی، مطالعے کی عادت، سگریٹ نوشی سے جان چھڑانا، وغیرہ وغیرہ... ان کی کمٹمنٹ کی جاتی ہے۔یار لوگوں نے اسی عیسوی کے بجائے قمری سال کے ایک اہم مہینے سے جوڑ دیا۔

دوسروں کی مدد سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے (ٖفوٹو: سوشیو ایفیکٹ)

کئی سال پہلے ہوسٹل میں ایک دوست کے عزیز نے گپ شپ میں ایسی بات بتائی کہ وہاں بیٹھے سب لوگ سحر زدہ ہو گئے ۔ ہاسٹلز میں عام رواج ہے کہ کسی ایک لڑکے کے کمرے میں دو چار دوست اکٹھے ہو گئے اور گھنٹوں گپ شپ چلتی رہی۔ وہیں ایک صاحب نے جو کسی لڑکے کے مہمان تھے، بتایا کہ ’میں ہر سال عیدین سے پہلے ہی عیدی بانٹ دیا کرتا ہوں۔ اس بات پر باقی لڑکے حیران ہوئے۔ وہ صاحب آرام سے بولے ’دیکھیں عیدی دینے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی کے کام آ سکے۔ اپنی ماہانہ آمدنی سے ایک خاص تناسب سے رقم الگ کر لیتا ہوں، عید سے آٹھ دس دن پہلے اپنی بہنوں، بھائیوں، بھانجیوں، بھتیجیوں کے گھر جا کر ہر ایک کو عیدی کا لفافہ دے دیتا ہوں۔ اپنے ان قریبی رشتے داروں میں جو نسبتاً کم وسیلہ ہیں، ان کا حصہ زیادہ رکھ لیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’بچوں کے لیے الگ لفافے بنا رکھے ہیں، خاندان میں بعض گھر ایسے ہیں جنہیں اس کی ضرورت ہے، ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ دو تین ہزار بھی ان کے کسی نہ کسی کام تو آ جاتے ہوں گے۔ اس عیدی کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی انکار نہیں کرتا، ورنہ ویسے عید کے لیے مدد کرنا چاہوں تو کئی عزیز لینے سے انکار کر دیتے ہیں، عیدی سے کون منع کر سکتا ہے؟ عید والے دن ملنے گیا تو عیدی کے بجائے پھل کیک وغیرہ لے جاتا ہوں۔‘

کئی اچھے نئے سال کے مشہور نیو ائیر ریزولیوشن کے بجائے یکم رمضان کو بھی کیے جا سکتے ہیں (فوٹو: اے پی)

یہ بات سن کر ہم سب حیران رہ گئے۔ ایک دوست نے پوچھا کہ طریقہ تو آپ کا بہت ہی خوب ہے، مگر یہ کہاں سے سیکھا؟ یہ سن کر مسکرائے اور بولے کہ ایک دوست سے، جس نے مجھے شادی پر بر وقت سلامی دے کر یہ نکتہ سکھایا۔ پھر بولے کہ میری شادی ہونے والی تھی، اخراجات توقع سے کچھ زیادہ ہو رہے تھے، وسائل کم تھے، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ دفتر سے چھٹیاں لے چکا تھا۔ ایک روز میرے دفتر کے ایک کولیگ اور محترم دوست گھر آئے۔ انہوں نے کئی سال باہر گزارے تھے اور ایک خاص قسم کا قرینہ ان کی زندگی میں تھا۔ مجھے گھر سے باہر بلایا اور ایک موٹا سا لفافہ کوٹ کی اندر والی جیب سے نکالا اور مجھے پکڑا دیا، کہنے لگے کہ یہ آپ کی شادی کی سلامی ہے۔
 حیرت سے میں نے انہیں کہا، مرزا صاحب شادی تو ایک ہفتے بعد ہے، نکاح والے دن آپ سلامی بھی دے دیجیے گا۔ انہوں نے خاموشی سے وہ لفافہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور بولے، ’بھائی میں سلامی شادی سے پہلے دینے کا قائل ہوں۔ اس کی افادیت بھی پہلے ہی ہے، بعد کا تو تکلف ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے۔‘
گھر جا کر میں نے لفافہ کھولا تو اس کے اندر معقول رقم موجود تھی، اتنی معقول کہ مجھے کسی اور سے قرض مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، مشکل رفع ہو گئی۔

’خیر کا کام کرنے کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کوئی لمبا چوڑا اہتمام کیا جائے، بلکہ یہ چھوٹی چیزوں سے بھی ممکن ہے۔‘ (فوٹو: اے پی)

وہ صاحب کہنے لگے، ’شادی کی سلامی والی بات سمجھ بھی آ گئی اور اس کا قائل بھی ہو گیا۔ بعد میں ایک دن خیال آیا کہ عید کے اصل اخراجات تو عید سے پہلے ہونے ہیں۔ عید والے دن اگر کسی کو ٹھیک ٹھاک عید بھی مل جائے۔ تب بھی وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ بات سمجھ آ گئی تو پھر جسے عیدی دینی ہو، اسے عید سے پانچ سات روز پہلے دے دیتا ہوں، تاخیر ہوجائے تو چاند رات سے ایک دو دن پہلے لازمی دے آتا ہوں کہ ممکن ہے کسی کی عید تیاری میں کوئی کسر باقی ہو، نیا جوتا نہ لے سکا ہو، کچھ اور چیزیں ناکافی ہوں تو ممکن ہے میری عیدی وہ مسئلہ حل کر دے۔‘
بات خوبصورت تھی، روح تک سرشار ہو گئی، سب لڑکوں نے تب عہد کیا کہ قدرت نے مہلت دی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ بعد میں شائد بھول بھال گئے ہوں گے۔

پھلوں کے شاپر میں بزرگوں کے لیے فوڈ سپلیمنٹ پر مشتمل دوا بھی دی جا سکتی ہے (فوٹو: فری پک)

ایسی ہی ایک چھوٹی سی بات پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر پڑھی۔ دلچسپ لگی تو یاد رہ گئی۔ صاحب پوسٹ کے مطابق ایک دوست ان کے گھر ملنے آئے تو ساتھ کیک وغیرہ کے بجائے پھل لے آئے اور ساتھ ایک دلچسپ تحفہ تھا۔
آج کل کیلشم اور وٹامن سی کا مشہور سپیلیمنٹ ہے، گول ٹکیہ نما گولی ہوتی ہے جسے پانی میں گھول کر پیا جاتا ہے۔ کہنے لگے کہ ’پھلوں کے شاپر میں اس کی بڑی پیکنگ والی بوتل تھی۔ حیران ہو کر انہوں نے پوچھا یہ کیا لے آئے، کہنے لگے کہ آپ کی والدہ بزرگ ہیں، ان کو ڈاکٹرز یہ ٹکیہ استعمال کراتے ہوں گے کیونکہ ڈاکٹرز کا یہ لازمی مشورہ ہوتا ہے کہ بزرگ خواتین آسٹیو پوروسس سے بچنے کے لیے کیلشم، وٹامن ڈی، وٹامن سی کا کوئی سپلیمنٹ لیا کریں۔ میری طرف سے ماں جی کے لئے چھوٹا سا تحفہ۔‘ پوسٹ میں لکھا تھا کہ انہیں یہ بات دلچسپ اور منفرد لگنے کے ساتھ بڑی مفید بھی لگی۔ مٹھائی کے ڈبے اور کیک لے جانے کے بجائے ایسی مفید، صحت افزا چیزیں لے کر جائیں تو گھر والوں کو زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
چند دن بعد عید ہے تو اس مناسبت سے یہ سب یاد آیا۔ باتیں تو چھوٹی چھوٹی ہیں، مگر کیا خبر کوئی چھوٹی سی بات ، کس کے حق میں بڑی بات ثابت ہو۔ یہی چھوٹی باتیں ہی خاص باتیں ہوتی ہیں۔

 

شیئر: