Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مجھے کہا گیا گائنی میں جائیں، سرجری کا شعبہ خواتین کا نہیں‘، ملاکنڈ ایجنسی کی پہلی خاتون سرجن ڈاکٹر

جنرل سرجن ڈاکٹر لبنیٰ گل نے زوال بابا ہسپتال تیمرگرہ میں چارج سنبھالا ہے۔ (فوٹو: ہسپتال)
خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ہسپتال میں خاتون جنرل سرجن کی تعیناتی ہوئی ہے جس سے علاقے کی خواتین کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے۔ خاتون ڈاکٹر کے آنے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ خواتین جو شرم کی وجہ سے مرد ڈاکٹروں کو اپنے امراض کے بارے میں نہیں بتا سکتی تھیں، اب مقامی سطح پر ان کے لیے علاج کرانا کافی آسان ہوگا۔
جنرل سرجن ڈاکٹر لبنیٰ گل نے ضلع لوئر دیر میں غیرسرکاری ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت زوال بابا ہسپتال تیمرگرہ میں چارج سنبھالا ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن  سمیت خیبر پختونخوا کے دوردراز علاقوں میں لیڈی ڈاکٹروں، تجربہ کار طبی عملے اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ ان علاقوں کی خواتین کو پیچیدہ طبی مسائل یا ایمرجنسی کی صورت میں دارالحکومت پشاور کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو نہ صرف مالی لحاظ سے ایک بڑا بوجھ بنتا ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی تھکا دینے والا اور بعض اوقات جان لیوا سفر ثابت ہو سکتا ہے۔
جنرل سرجن وہ ڈاکٹر ہوتے ہیں جو بیماری کی تشخیص کرتے ہیں اور جراحی کے عمل میں مہارت رکھتے ہیں۔
جنرل سرجن پیٹ، چھاتی، سر، گردن اور نظام انہضام کے امراض کا علاج کرتے ہیں اور زخموں اور ایسی بیماری کا علاج کرتے ہیں جن کے لیے سرجری درکار ہوتی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر لبنیٰ گل نے کہا کہ وہ لوئر دیر میں بطور جنرل سرجن تعیناتی پر خوش ہیں کیونکہ وہ اپنے علاقے کے لیے کام کرنا چاہتی تھیں۔
ہسپتال میں خاتون سرجن کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر لبنیٰ نے کہا کہ ’پریکٹس کے دوران میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ خواتین جب ڈاکٹروں کو طبی مسائل بیان کرتی ہیں تو وہ شرم محسوس کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ مکمل اور درست معلومات فراہم نہیں کرتیں۔ اس کے باعث ان کی بیماری کی تشخیص نہیں ہوتی یا غلط تشخیص ہو جاتی ہے اور وہ اس بیماری کا علاج کرواتی رہتی ہیں جو ان میں اصل میں ہوتی ہی نہیں۔ بعض اوقات وہ صرف اس لیے تکلیف برداشت کرتی رہتی ہیں کیونکہ کلچرل رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اپنے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا معائنہ نہیں کرواتیں۔ تو میرے خیال میں ان تمام وجوہات کی بنیاد پر خواتین ڈاکٹروں کی موجودگی نہایت ضروری ہے۔‘
ڈاکٹر لبنیٰ گل نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی خواتین کے لیے نہ صرف ڈاکٹر کو بتانا مشکل ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات گھر میں بھی اپنے مسائل بتانا آسان نہیں ہوتا۔
’بہت سے کیسز ایسے سامنے آتے ہیں جہاں خواتین، مرد ڈاکٹروں سے چیک اپ کرانے سے گریز کرتی ہیں۔ میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے تجربے کے بارے میں بتا دوں کہ خواتین تب ہسپتال آتی تھیں جب چھاتی کا سرطان خطرناک حد تک بڑھ جاتا۔ ایک مریضہ کو انکونٹیننس کا مسئلہ تھا یعنی ان کا پاخانہ کنٹرول نہیں تھا اور وہ شرم کی وجہ سے یہ بات کسی سے نہ کہہ سکیں۔ جب مرد ڈاکٹر کے پاس گئیں تو محض یہ کہا کہ مجھے پائلز کی تکلیف ہے اور اسی کا علاج ہوتا رہا۔ اصل بیماری کی تشخیص ہی نہ ہو سکی۔ تو اس قسم کے مسائل خواتین ڈاکٹروں کی موجودگی سے بہت بہتر انداز اور نسبتاً آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔‘
’آپ گائنی کے ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں، جنرل سرجری کا شعبہ کا خواتین کے لیے نہیں‘
ڈاکٹر لبنیٰ گل کے کیریئر میں ان کے شوہر جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری شادی میڈیکل ٹریننگ کے فرسٹ ایئر میں ہوئی تھی۔ جو تربیت میں نے مکمل کی ہے، اگر میرے شوہر ڈاکٹر نہ ہوتے تو شاید میں پڑھائی کو بیچ میں چھوڑ دیتی۔ بچوں کے ساتھ پروفیشنل زندگی سنبھالنا فیملی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے میرا میکہ اور سسرال دونوں بہت سپورٹیو ہیں۔‘
’جب میں نے اپنے کیریئر کی شروعات کی تو بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ گائنی کے ڈیپارٹمنٹ میں چلی جائیں کیونکہ جنرل سرجری کا شعبہ کا خواتین کے لیے نہیں۔ لیکن پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہپستال میں ایف سی پی ایس کی تربیت کے دوران مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں ایک خاتون ہوں اور میں یہ کام نہیں کرسکتی ہوں، میرے ساتھی طبی عملے کے ساتھ اچھا وقت گزرا۔ میرے خیال میں جس شعبے میں آپ کی دلچسپی ہو، تو وہیں کام کرنا چاہیے۔ صرف چیلنجز کی وجہ سے ٹریننگ کو نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ انہی چیلنجز پر توجہ دے کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘
’مرغیاں بکریاں فروخت کر کے ڈاکٹر کی فیس اور سفر کے اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں‘
لوئر دیر کی ایک سکول ٹیچر تاج مینہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا رواج ہے کہ جب تک عورت شدید بیمار نہ ہو جائے ہم اسے چیک اپ کے لیے نہیں لے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ ’دوسرا یہ کہ اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ آسانی سے جا سکتا ہے لیکن غریب لوگوں کو علاج کے لیے قرض لینا پڑتا ہے یا اپنی مرغیاں اور بکریاں فروخت کرنی پڑتی ہیں تاکہ ڈاکٹر کی فیس اور سفر کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔‘
دکاندار رفیق خان کا کہنا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کے آنے سے اب خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے نہیں جانا پڑے گا۔
ان کے مطابق ’علاقے میں ایک ایسی خاتون ڈاکٹر کی ضرورت تھی جو صرف خواتین کا علاج کر سکتی ہیں۔‘
الخدمت فاؤنڈیشن ملاکنڈ ڈویژن کے صدر فضل محمود نے بتایا کہ اس علاقے میں طبی سہولیات کا شدید کمی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو علاج کے لیے پشاور، اسلام آباد ار مینگورہ جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کافی عرصے سے کوشش کر رہے تھے کیونکہ گائنی کے ڈاکٹرز ہیں لیکن علاقے کی خواتین کے لیے ایک جنرل سرجن کی اشد ضرورت تھی۔
’اکثر ڈاکٹر شہروں میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے دوردراز کے علاقوں میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے۔

شیئر: