پاکستان میں رواں برس کے دوران مال مویشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور گدھوں، بھینسوں، بکریوں اور بھیڑوں سمیت دیگر جانوروں کی تعداد میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2025 میں ملک میں مویشیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 22 کروڑ 50 لاکھ ہو چکی ہے، جو گذشتہ برس کے مقابلے میں لاکھوں کے اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔
ان جانوروں میں سب سے بڑی تعداد بکریوں کی ہے جو آٹھ کروڑ 70 لاکھ 35 ہزار سے بڑھ کر آٹھ کروڑ 93 لاکھ 93 ہزار ہو گئی ہے۔ دیہی معیشت میں بکریاں دودھ، گوشت اور کھال کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور ان کی افزائش میں تیزی سے اضافہ ایک رجحان بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں
-
لائیو سٹاک پالیسی پر انڈسٹری اور حکومت میں اختلافات کیوں؟Node ID: 776311
اسی طرح بھینسوں کی تعداد میں بھی ایک برس کے دوران 13 لاکھ 78 ہزار کا اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے بعد ان کی تعداد چار کروڑ 63 لاکھ 10 ہزار سے بڑھ کر چار کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار ہو چکی ہے۔ بھینسیں دیہی علاقوں میں دودھ کی بنیادی فراہمی کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں اور پاکستان کی ڈیری انڈسٹری میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔
بھیڑوں کی تعداد میں بھی استحکام دیکھا گیا ہے اور ایک برس میں تین لاکھ 88 ہزار کے اضافے کے بعد ان کی مجموعی تعداد تین کروڑ 27 لاکھ 31 ہزار سے بڑھ کر تین کروڑ 31 لاکھ 19 ہزار ہو گئی ہے۔ یہ جانور خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں ان کا گوشت اور اون بنیادی معاشی وسائل میں شامل ہیں۔
سب سے دلچسپ اضافہ گدھوں کی تعداد میں دیکھا گیا ہے، جنہیں عام طور پر محنت کش اور بوجھ اٹھانے والے جانور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک برس کے عرصے میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ نو ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 59 لاکھ 38 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 47 ہزار ہو چکی ہے۔ اگرچہ شہری علاقوں میں گدھوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے، مگر دیہی معیشت میں یہ اب بھی ٹرانسپورٹ اور لوڈنگ کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گائے کی تعداد بھی تقریباً پانچ کروڑ 75 لاکھ کے قریب ہے، جو کہ دیہی معیشت میں دودھ اور گوشت کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اونٹوں کی تعداد تقریباً 12 لاکھ بتائی جا رہی ہے جو خاص طور پر صحرائی علاقوں میں نقل و حمل، قربانی اور ثقافتی اہمیت کے حوالے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔

مویشیوں کی یہ مجموعی آبادی نہ صرف ملک کے زرعی شعبے کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ دیہی خاندانوں کی معیشت کا ستون بھی ہے، جہاں 80 لاکھ سے زائد گھرانے اپنی آمدن کا 35 سے 40 فیصد انہی جانوروں سے حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان میں لائیو سٹاک کا شعبہ نہ صرف خوراک اور زراعت کے لیے اہم ہے بلکہ یہ دیہی روزگار، کھال کی صنعت، دودھ اور گوشت کی پیداوار اور دیگر ذیلی شعبہ جات کا بھی بنیادی انجن ہے۔ اس وقت لائیو سٹاک سیکٹر کی مجموعی مالیت 55 کھرب روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جو ملکی جی ڈی پی میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس شعبے کی افزائش نسل، ویکسینیشن، چارے کی فراہمی اور مارکیٹ تک رسائی کے مسائل پر بروقت توجہ دی جائے تو یہ نہ صرف دیہی غربت کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے کا ایک مؤثر وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔