کپتان اب تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کے ساتھ ساتھ پیٹرن اِن چیف بھی ہوں گے۔ عید کے بعد بڑی احتجاجی تحریک برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بظاہر فرنٹ فُٹ پر آکر کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ پسِ پردہ روابط کی ناکامی اور عارضی لائن قدرے معطل ہونے کے بعد اب انہوں نے جارحانہ انداز اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
علی امین گنڈا پور کی نو بال! اجمل جامی کا کالمNode ID: 878643
-
رچرڈ گرینل اور عمران خان۔۔۔! اجمل جامی کا کالمNode ID: 883199
-
احتجاج، مذاکرات، خط اور اب گرینڈ الائنس؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 885491
نوجوان ورکرز جو سوشل میڈیا پر سرگرم رہے، پکڑ دھکڑ کا شکار رہے، انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے۔ محمد زبیر کی شمولیت ہو رہی ہے، اطلاع تھی کہ وہ ن لیگ چھوڑنے کے بعد ہی فیصلہ کر چکے تھے لیکن پھر 9 مئی ہو گیا۔
کچھ اہم پارٹی رہنما مائنس ہو رہے ہیں اور کچھ کو نئی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر علی امین گنڈاپور کو ہی دیکھ لیجیے، ماضی قریب میں ہوئے احتجاج اُنہی کے سنگ رہے، نتائج البتہ وہ نہ برآمد ہو سکے جن کی اُمید ورکرز کو تھی۔
اطلاع ہے کہ ان سے قدرے ناراضی کا دور چل رہا ہے، معدنیات والے بل پر تلخی بھی ہوئی۔ اب عید کے بعد کی تحریک سے انہیں عملی طور پر آؤٹ رکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔
بیرسٹر گوہر دھیمے لہجے کے وکیل رہنما ہیں، اپنے تئیں جو بن پایا کرتے رہے۔ انہیں ڈپلومیٹک فرنٹ کو دیکھنے کا کہا گیا ہے۔ یوں سمجھیے کہ انہیں بھی اس تحریک سے عملی طور پر رُخصت دی گئی ہے۔
یعنی پیٹرن اِن چیف جیل بیٹھ کر خود تحریک کی قیادت کرنے کے خواہاں ہیں، منصوبہ بندی بیرسٹر علی ظفر اور عملی طور پر تحریک لیڈ کرنے کی ذمہ داری اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو سونپی گئی ہے۔

علی امین کے ساتھ بشریٰ بیگم نکلیں لیکن طے شدہ پلان میں گڑبڑ ہوئی، احتجاج کسی اور صورت کسی اور انجام سے دوچار رہا۔ اب کے بار سوچ ہے کہ شاید علیمہ بی بی کپتان کی نمائندگی کرتے ہوئے ورکرز کے ہمراہ دکھائی دیں۔
خان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں اسٹیبلشمنٹ کو اُن کی ضرورت ہے۔ مقبول جماعت کے مقبول رہنما کے ہاں یہ سوچ ان کی اُفتاد طبع اور سیاسی فکر کی غماض ہے۔
یہ الگ بات کہ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے ہنگام سسٹم کی گرفت اور گراف، دونوں پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوئے ہیں۔ کچھ حکومتی حلقوں کا ماننا ہے کہ پہلے شاید یہ سوچ پائی جاتی ہو کہ کسی وقت اعتماد سازی کے ذریعے کوئی بیچ کی راہ نکالنا ضروری ہے لیکن حالیہ واقعات کے بعد اس سوچ پر مکمل تاریکی کے سائے ہیں۔
اب سوال مگر یہ ہے کہ کیا کپتان کی جانب سے عید کے بعد بڑی احتجاجی تحریک کا فیصلہ درست ہے؟ کیا یہ تحریک نتائج برآمد کر پائے گی؟ کیا عمر ایوب، علیمہ خان یا دیگر کی رہنمائی میں ملک بھر میں کوئی طوفانی سیاسی ارتعاش پیدا ہو پائے گا؟ جیل بیٹھ کر دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے دو اہم ذمہ داروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا، ایک صاحب جو وکیل بھی ہیں، سمجھتے ہیں کہ موسمی اعتبار سے پارہ انتہائی اوپر ہے، جون اور جولائی کے ماہ ہیں، گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت حد تک سڑکوں کو گرماتی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ دوپہر ہو یا شام، احتجاج کا عمل جُھلس سکتا ہے۔ پاک انڈیا جنگ کا درجہ حرارت بھی ابھی نارمل نہیں ہوا۔ اس کی حِدت مسلسل معمول کی سیاسی و غیر سیاسی نشریات کا حصہ ہے۔ ان دو اہم فیکٹرز کے ہوتے ہوئے فوری احتجاجی تحریک کا فیصلہ زیادہ مناسب نہیں۔
عرض کی کہ پھر مناسب کیا تھا؟ وہ کہنے لگے کہ مناسب ہوتا کہ یہ چھ آٹھ ہفتے، اپوزیشن الائنس کو تگڑا کرنے میں صرف ہوتے۔ مولانا اور پی ٹی آئی کے بیچ بد اعتمادی کو دُور کرنے میں لگتے، بھرپور اپوزیشن الائنس کی تشکیل ہوتی۔
ان کے مطابق احتجاجی تحریک کے سٹیج پر محمود خان اچکزئی، مولانا، جی ڈے اے اور دیگر کے ہمراہ پی ٹی آئی کی اہم ترین قیادت بھی بیٹھی ہوتی تو تاثر جاندار ہوتا۔
