Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چار مہینے میں پنجاب میں 58 ہزار سے زائد کومبنگ آپریشنز: یہ آپریشن ہے کیا، کیسے کیا جاتا ہے؟

لاہور کے مضافاتی علاقے ہئیر کی ایک تنگ گلی میں رات کے سناٹے کو پولیس کی گاڑیوں کی آوازیں چیرتی ہیں تو لوگ چوکنے ہو جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے پہلے سے کچھ خاص گھروں کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ انہی گھروں کے دروازوں پر دستک ہوتی ہے اور رہائشیوں کو شناخت کے لیے باہر بلایا جاتا ہے۔
چند گھروں کو چیک کرنے کے بعد گاڑیاں روانہ ہو جاتی ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں بلکہ اب ایک ’معمول‘ کی سرگرمی ہے، یہ پنجاب پولیس کا ایک اور کومبنگ آپریشن ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے مئی 2025 تک پنجاب بھر میں 58,000 سے زائد کومبنگ آپریشنز ہو چکے ہیں، جن میں 20 لاکھ افراد کی چیکنگ کی گئی اور 9,500 مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کومبنگ آپریشنز اب پنجاب کی سکیورٹی پالیسی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
لیکن کیا یہ آپریشنز شہری آبادیوں میں ’نیا معمول‘ بن چکے ہیں؟ یہ کب شروع ہوئے، اور ان کا شہریوں کی روزمرہ زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟
کومبنگ آپریشن کیا ہے؟
سابق آئی جی پنجاب، خواجہ خالد کے مطابق، کومبنگ آپریشن ایک انٹیلی جنس بیسڈ سکیورٹی کارروائی ہے جس کا مقصد مخصوص علاقوں میں مشکوک افراد، مجرموں یا دہشت گردوں کی نشاندہی اور گرفتاری ہے۔
ان کے بقول، یہ آپریشنز تین مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں: ’سرچ، سویپ اور کومبنگ۔‘
سرچ میں مخصوص انٹیلیجنس کی بنیاد پر کسی علاقے میں مشکوک افراد یا سرگرمیوں کی تلاش کی جاتی ہے۔
سویپ میں بڑے پیمانے پر گھر گھر چیکنگ، شناخت کی تصدیق اور اسلحہ یا ممنوعہ اشیاء کی جانچ شامل ہوتی ہے۔
کومبنگ میں گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات کی مکمل چھان بین، گشت اور ناکہ بندی شامل ہوتی ہے۔
یہ آپریشنز عام طور پر رات کے وقت یا صبح سویرے کیے جاتے ہیں تاکہ مشکوک افراد کو فرار سے روکا جا سکے۔ ان میں پنجاب پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، ایلیٹ فورس اور بعض اوقات رینجرز یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہوتے ہیں۔

کومبنگ آپریشنز کا آغاز

تاریخی شواہد کے مطابق، پنجاب میں کومبنگ آپریشنز کا آغاز 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہوا، جب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو سنگین سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 2008 کے بعد، جب دہشت گرد گروہوں نے لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے شہروں کو نشانہ بنایا، تو پنجاب پولیس نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنایا۔
نیشنل ایکشن پلان (2014) کے بعد، جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ تھا، ان آپریشنز کو صوبائی سطح پر منظم کیا گیا۔
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے ’ہمارا مشن اندرونی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ کومبنگ آپریشنز دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو روکنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔‘

جنوری تا مئی 2025: اعداد و شمار کا جائزہ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری سے مئی 2025 تک پنجاب میں 58,000 سے زائد کومبنگ آپریشنز ہوئے، جو روزانہ اوسطاً 387 آپریشنز بنتے ہیں۔ ان آپریشنز میں 20 لاکھ افراد کی شناخت، رہائش، اور سفر کی تفصیلات کی تصدیق کی گئی۔
ساڑھے 9 ہزار مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے کچھ پر مقدمات قائم ہوئے، جبکہ دیگر کو تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، 5,000 سے زائد ملزمان گرفتار کیے گئے، جن میں 2,000 سے زائد عدالت سے مفرور اور 1,500 سے زائد عادی مجرم شامل تھے۔
ان آپریشنز کے دوران بڑی مقدار میں غیر قانونی اسلحہ، گولیاں اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔
مثلاً، صرف ایک دن، 13 مئی 2025، کو 412 آپریشنز کے دوران 14,219 افراد کی چیکنگ ہوئی، 52 مشکوک افراد حراست میں لیے گئے اور 212 اشتہاری مجرم گرفتار کیے گئے۔

سالانہ اوسط

2025  کے ابتدائی پانچ ماہ میں 58,000 آپریشنز کی بنیاد پر سالانہ اوسط ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
2024  میں 1,20,000 کومبنگ آپریشنز ہوئے جن میں 50 لاکھ افراد کی چیکنگ ہوئی، جبکہ 2023 میں یہ تعداد 40 لاکھ، اور 2022 میں صرف 80 ہزار افراد تھی۔
یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ کومبنگ آپریشنز کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک طرف سکیورٹی خطرات کی شدت اور دوسری طرف انٹیلیجنس صلاحیتوں میں بہتری کی علامت ہے۔
سیکیورٹی ماہر ڈاکٹر محمد ارشد کے مطابق ’کومبنگ آپریشنز اب پنجاب کی پولیسنگ کا ڈیفالٹ موڈ ہیں۔ یہ سکیورٹی کے لیے ضروری ہیں، مگر ان کی تعداد میں اضافہ سویلین زندگی پر دباؤ بھی بڑھا رہا ہے۔‘

کومبنگ آپریشن کیسے کیا جاتا ہے؟

خواجہ خالد کے مطابق، کومبنگ آپریشن ایک منظم اور کثیرالجہتی عمل ہے۔
انٹیلی جنس جمع کی جاتی ہے، سی ٹی ڈی، سپیشل برانچ یا مقامی پولیس مشکوک سرگرمیوں کی اطلاعات اکٹھی کرتی ہے۔
منصوبہ بندی — پولیس، ایلیٹ فورس اور کبھی کبھار رینجرز مل کر حکمتِ عملی تیار کرتے ہیں، جن میں ناکہ بندی کے مقامات، گشت کے راستے، اور چھاپوں کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔
عمل درآمد — گھر گھر تلاشی لی جاتی ہے، رہائشیوں کی شناخت، پیشہ اور حالیہ سفر سے متعلق پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندی، بازاروں، مساجد اور بس اڈوں پر گشت اور مشکوک افراد کی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ اگر شواہد دستیاب ہوں، تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
ہر آپریشن کے بعد ایک رپورٹ تیار کی جاتی ہے جو آئی جی پنجاب کو بھیجی جاتی ہے۔

سویلین آبادی پر اثرات: نیا معمول؟

ظاہری طور پر یہ آپریشنز ان علاقوں تک محدود ہوتے ہیں جہاں گنجان آبادیاں اور غیر رجسٹرڈ افراد زیادہ تعداد میں مقیم ہوں۔ پوش علاقوں میں شاذ و نادر ہی ایسے آپریشن دیکھنے کو ملتے ہیں۔
لاہور کی کچی آبادیوں میں، البتہ، یہ معمول بن چکا ہے۔ ایک رہائشی محمد حفیظ نے بتایا کہ ’ہمارے ادھر ہر دوسرے تیسرے دن پولیس رات کو کبھی 12 بجے، کبھی 3 بجے آ جاتی ہے۔ شروع میں تو ہم گھبرا جاتے تھے، اب تو معمول سا لگتا ہے۔‘
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق، یہ آپریشنز انتہائی غیر محسوس انداز میں کیے جاتے ہیں اور مقامات پہلے سے پن پوائنٹ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انحصار انٹیلیجنس پر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں کہ کومبنگ آپریشنز سکیورٹی کے لیے ناگزیر ہیں، لیکن ان کی تعداد کو کم کرنے کے لیے سمارٹ پولیسنگ اور ٹیکنالوجی (جیسے سی سی ٹی وی، ڈرونز) کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ اب وقت ہے کہ ڈیجیٹل نگرانی کو ترجیح دی جائے۔‘
دوسری طرف، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2024 میں اپنی رپورٹ میں کچھ شہریوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پر بھی سوالات اٹھائے تھے، جن کا تعلق ان ہی آپریشنز سے تھا۔

شیئر: