برطانیہ اور اس کے چار اتحادیوں نے دو اسرائیلی وزرا پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’بار بار فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو جن اسرائیلی وزرا پر پابندی عائد کی گئی ان میں وزیر خزانہ بیزالل سموٹرچ اور نیشنل سکیورٹی کے وزیر اتامر بین گوئر شامل ہیں۔
برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ اب دونوں افراد ملک میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور یہاں موجود ان کے اثاثے بھی منجمد ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں
-
غزہ جنگ، برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کر دیےNode ID: 889949
-
اسرائیلی فورسز کی غزہ میں فائرنگ سے 36 فلسطینی ہلاکNode ID: 890698
یہ قدم آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے کے اشتراک سے اٹھایا گیا ہے اور اس کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت کو حماس کے ساتھ لڑائی کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
برطانوی حکومت کے ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ کینیڈا اور آسٹریلیا بھی جلد ہی پابندی عائد کریں گے جبکہ نیوزی لینڈ اور ناروے نے وزرا کے صرف سفر پر پابندی عائد کی ہے۔
اس اقدام سے پانچ اہم ممالک اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ان پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’گوئر اور سموٹریچ نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے رویوں کو ابھارا۔‘
بیان کے مطابق ’ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں، اسی وجہ سے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے تاکہ ان کا احتساب ہو سکے۔‘

گوئرر اور سٹورمیچ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے کمزور حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دونوں ہی غزہ جنگ کے حوالے سخت گیر موقف رکھتے ہیں جبکہ مغربی کنارے اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی ابادکاری کے سخت حامی ہیں اور اسی وجہ سے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔
سٹورمیچ جو مغربی کنارے کی ایک بستی میں رہائش پذیر ہیں اور ان آبادیوں کو بڑھانے کے حامی ہیں اور کئی بار ان کو اسرائیل میں شامل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
پچھلے مہینے انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’غزہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا اور وہاں کے مکین دوسرے ممالک کی طرف جانا شروع کر دیں گے۔‘
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کا کہنا ہے کہ ’اس جوڑے نے خوفناک حد تک انتہا پسند زبان استعمال کی ہے اور میں اسرائیل سے کہوں گا کہ وہ ایسی زبان سے انکار کرے اور اس کی مذمت کرے۔‘
قبل ازیں اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے پابندیوں کے فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور انہوں نے اس اقدام کو ’اشتعال انگیز‘ بھی قرار دیا تھا۔
برطانوی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’شدت پسند آباد کاروں نے پچھلے سال جنوری سے لے کر اب تک فلسطینی شہریوں پر ایک ہزار نو سو حملے کیے۔‘
بیان کے مطابق ’پانچوں ممالک اس معاملے پر واضح موقف رکھتے ہیں کہ اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور دھمکیوں کے سلسلے کو رکنا چاہیے۔‘
برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ان اقدامات کو غزہ میں ہونے والے واقعات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔‘