عمر ایوب بوجوہ اپوزیشن لیڈر نہ رہے تو ملتان سے صوابی تک دستیاب اور عدم دستیاب پارٹی سرخیل حرکت میں آئے، قائد حزب اختلاف کا عہدہ تھا، اپنی اپنی دوڑ تھی، ادھر بھی رابطے ہوئے اور ادھر بھی، مسئلہ اڈیالہ کے مکین کا تھا کہ وہاں سے حتمی آشیر باد ملتی تو کام بنتا، دو چار رہنماوں نے ہوم ورک بھی تقریباً مکمل کر رکھا تھا، لیکن اسی اثنا میں پارٹی دھڑے بندی اور اس اہم عہدے پر جاری ریس کی پوری جانکاری اڈیالہ تک جا پہنچی اور پھر بقول قائم چاند پوری؛
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
دستیاب قیادت کی پرفارمنس پر پہلے ہی سے نالاں کپتان اس ایک مسئلے پر مزید تجربات کرنے کی بجائے مدعا کسی اور طریقت سے سمیٹنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ قرعہ محمود خان اچکزئی کے نام نکلا۔
مزید پڑھیں
-
’علی امین گنڈا پور کی نئی فریکوئنسی‘، اجمل جامی کا کالمNode ID: 890851
-
فرزندانِ خان قاسم اور سلمان پاکستان آئیں گے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 892068
-
جے شنکر: لوزنگ سٹاک سے لافنگ سٹاک تک، اجمل جامی کا کالمNode ID: 893101
فیصلہ بہت پہلے ہوچکا تھا، اعلان کرنے کے لیے منگل کا انتظار کیا گیا، اطلاع ہے کہ اس روز اہل خانہ اور دیگر کے بجائے صرف ایک شخص یعنی اسلام آباد سے وکیل رہنما علی بخاری سے ہی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ وہ باہر آئے تو پارٹی قیادت کو انہوں نے من و عن پیغام پہنچا دیا۔
پیغام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بذریعہ ٹیم نقل ہوا تو معلوم ہوا کہ 70 سے 80 فیصد سینسر ہے۔ اس بار سینسر کسی حساس عہدے یا مقتدرہ کے ذکر خیر کی وجہ سے نہیں بلکہ پارٹی رہنماوں کے نام تھے جن کے حوالے سے بقول شخصے کپتان نے خاصی کھری کھری سنا رکھی تھیں۔
اسی رو میں ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا، یہ سہرا بھی اچکزئی صاحب کے سر کہ انہی کی رائے جب کپتان تک پہنچی تو انہوں نے حامی بھری۔ پارٹی کے ہاں مشاورت اب ٹکٹوں کی تقسیم اور روپے پیسے پر ہونا ہے۔
اچکزئی بامقصد مذاکرات میں بطور اپوزیشن لیڈر جانے کو تیار ہوئے تو پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہوگی؟ آپسی تقسیم کیا اچکزئی کو اسمبلی میں وہ کمک فراہم کر پائے گی جس کے خواہاں وہ ہیں؟ اس مقصد کے لیے اچکزئی کپتان کی ایک عزیزہ اور ایک پارٹی عہدیدار وکیل سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندر، بالخصوص سیاسی کمیٹی میں، کچھ لوگ اچکزئی کی نامزدگی پر اعتراض کر رہے ہیں اور ان کا پلان ہے کہ جلد عمران خان سے ملیں اور انہیں قائل کریں وہ یہ فیصلہ واپس لیں۔

نئے صوبوں کی ضرورت ایک بار پھر محسوس کی جارہی ہے، ظاہر ہے محسوس نظام ہی کرتا ہے، سیاستدان نما حکمران تو اپنی اپنی الاٹ شدہ جاگیر کی تقسیم کے حق میں نہیں ہوا کرتے۔ اس سلسلے میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران کچھ تھنک ٹینکس اور کچھ ذمہ داران خاصی حرکت میں آئے ہیں، ہمارے درویش نما ذریعے کے مطابق گورننس، اہم ترین مسائل پر اہم فیصلے لینے میں تاخیر، سیاسی بیانیے کی جنگ میں متبادل بیانیے کی عدم فراہمی اور کچھ اہم عہدوں پر غیر ضروری تقرریوں کے کارن سوچ پائی جاتی ہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔
پہلے پہل ایک بار پھر پرانی فائلوں کی جھاڑ پونچھ کر کے نئے رنگ بھرے گئے، پھر چند میڈیا مالکان کے ساتھ نشست کا طویل اہتمام ہوا، ایک اہم اور طاقتور ترین وزیر اس کاز کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہے۔ ایس ایم تنویر کی کامیاب لانچنگ اور ان کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم پر اٹھائے سوال اسی نئے سیزن کی ایک قسط ہیں۔
اگلے مرحلے میں میڈیا کے محاذ پر مکالمے اور جاندار مباحثے دیکھنے کو ملیں گے۔ نظام کے اندر کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ نئے صوبوں (چاہے وہ آٹھ ہوں، 10 ہوں یا 12 یا 32) سے فوری طور پر مخصوص سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری سے چھٹکارہ ممکن ہوگا اور اگلے مرحلے میں نئی قیادت کے منظر عام پر آنے کے امکانات روشن ہوں گے۔
سفارش کے ساتھ ساتھ میرٹ پر بھرتیوں کا امکان بڑھے گا اور محرومی کی شکار آبادیوں کو بہتر گورننس ملے گی۔ ایک ذمہ دار کے مطابق اس تقسیم سے سرِ دست وراثتی سیاست کی باونڈری محدود ہو کر رہ جائے گی اور چاہتے نہ چاہتے بڑی سیاسی جماعتوں کو نئے صوبوں میں خاندان سے ہٹ کر نئی قیادت متعارف کروانا پڑے گی۔
