’کاش کوئی سراغ مل جاتا‘، گلگت سے اسلام آباد آتے لاپتہ ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کو 36 برس بیت گئے
پیر 25 اگست 2025 17:43
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
نورین شمس کے مطابق طیارے کی گمشدگی کے بعد مختلف افواہیں پھیلیں۔ کبھی چلاس کی پہاڑیوں کا ذکر ہوا تو کبھی تریچ میر چوٹی میں طیارہ گرنے کی خبر پھیلائی گئی۔
’یہ 25 اگست کا دن تھا جب یہ اطلاع ملی کہ لوگوں کی بڑی تعداد اسلام آباد ایئرپورٹ کے باہر جمع ہو کر پی آئی اے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ہم نے ٹی وی لگا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ پی آئی اے کا طیارہ لاپتا ہو گیا ہے جس میں میری چھوٹی بہن بھی سوار تھی۔‘
یہ کہنا ہے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے جمیل احمد کا جو راولپنڈی میں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سال 1989 کے مئی کے مہینے میں چھوٹی بہن زبیدہ کی شادی ہوئی تھی۔ بہنوئی گلگت میں رہائش پذیر تھے اسی لیے شادی کے بعد بہن کو گلگت جانا پڑا۔‘
’چار ماہ گلگت میں گزارنے کے بعد بہن اور ان کے شوہر نے راولپنڈی آنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے 25 اگست کو سیٹ کی بکنگ کروائی تھی مگر آخری وقت پر صرف دو سیٹیں ملی جس پر میری بہن زبیدہ اور ان کی نند روبینہ بیگم سوار ہو کر اسلام اباد روانہ ہوئیں تاہم بہنوئی ملک مسعود احمد کو ائیر پورٹ سے واپس جانا پڑا۔‘
جمیل احمد کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے کی پرواز 404 فوکر ایف 27 طیارے کا اڑان بھرنے کے دس منٹ بعد کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ گلگت سے اسلام آباد کا فضائی سفر 55 منٹ کا ہے مگر طیارے کو ٹیک آف ہوئے گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گیا مگر اس کا کوئی پتا نہیں چل رہا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں بہن کی طیارے میں موجودگی کی خبر اس وقت ہوئی جب ائیر پورٹ کے باہر رشتہ داروں کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ ان سے جب استفسار کیا تو پتا چلا کہ ہماری بہن اور نند بھی بدقسمت طیارے میں موجود تھیں۔ یہ سننا تھا کہ ہمارے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔‘
جمیل احمد کے مطابق اس وقت ہمیں بتایا گیا کہ طیارہ غلطی سے ہمسایہ ملک چلا گیا جبکہ کچھ لوگوں نے اطلاع دی کہ طیارہ ہائی جیک ہوکر افغانستان پہنچ گیا ہے مگر کسی نے مستند اطلاع نہیں دی۔
’ہمارے والدین اس خبر کے بعد شدید صدمے میں چلے گئے تھے۔ ہم بھی روز انتظار کرتے کہ شاید اب ان کے زندہ ہونے کی خبر مل جائے۔‘

جمیل احمد نے بتایا کہ ’ان کے والدین اسی غم اور انتظار میں اس دنیا سے چلے گئے مگر طیارے کی گمشدگی کا کسی کو علم نہ ہوسکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعہ کو 36 سال ہوگئے لیکن آج بھی 25 اگست کا دن اتا ہے تو ہمارے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔‘
طیارے میں ایک گھر کے چار افراد بھی سوار تھے
پی آئی اے کے اسی بدقسمت طیارے میں عبدالرشید خان کے گھر کے چار افراد سوار تھے جن میں ان کے والد، والدہ اور دو بھائی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’25 اگست میری زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جب مجھ سے ملنے کے لیے میرے والدین اور دو بھائی اسلام آباد آرہے تھے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘
عبدالرشید کے مطابق اس سانحے سے متعلق آج تک کوئی سرکاری رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ طیارہ آسمان کھاگئی یا زمین نگل گئی، کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ حادثہ ہوتا تو کہیں نہ کہیں سے ملبہ تو ملتا۔
انہوں نے کہا کہ ’36 برسوں سے 54 مسافروں کے لواحقین انتظار اور غم کی حالت میں ہیں۔ کئی لواحقین تو اسی انتظار میں انتقال کرگئے جبکہ اس وقت کے بچے اب بوڑھے ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود لاپتہ طیارے کی خبر نہیں مل سکی۔‘

نورین شمس بھی متاثرہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس طیارے میں ان کے کزن عرفان احمد سوار تھے۔ طیارہ ٹیک آف ہونے سے پہلے اپنے گھر والوں کو فلائیٹ سے متعلق بتایا مگر اس کے بعد پھر کبھی رابطہ نہ ہوسکا۔‘
نورین شمس کے مطابق طیارے کی گمشدگی کے بعد مختلف افواہیں پھیلیں۔ کبھی چلاس کی پہاڑیوں کا ذکر ہوا تو کبھی تریچ میر چوٹی میں طیارہ گرنے کی خبر پھیلائی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ ’اس دور میں موبائیل نہیں تھے، لینڈ لائن سے رابطہ ہوتا تھا تو اس لیے افواہوں کی تصدیق بہت مشکل سے ہوتی تھی۔ ہم کئی دن تک یہ سمجھتے رہے کہ کہ طیارہ کسی پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے اس وقت صرف تسلی دی گئی تاہم عملی طور پر وسائل کا استعمال نہیں ہوا۔ لاشیں ہی اگر مل جاتیں تو ہم اس درد کو لے کر جی نہ رہے ہوتے۔‘
پی آئی اے کے ریٹائرڈ آفیسر نجم الحسن کے مطابق یہ حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے جس میں نہ ملبے کا سراغ لگ سکا نہ بلیک باکس مل سکا۔
سرکاری طور پر اسے لاپتا طیارہ قرار دیکر کیس بند کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعہ کے دس روز بعد تک مسلسل فضائی اور زمین سرچ آپریشن کیے گئے۔ سرچ آپریشن میں بھارتی فضائی اداروں نے اپنی حدود میں بھی تلاش کی کوشش کی تھی۔‘
نجم الحسن کے مطابق تیس سے زائد بار سرچ آپریشن ہوئے جن میں ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا۔ کوہ ہمالیہ کے نانگا پربت سے لیکر کوہ ہندوکش تریچ میر اور افغانستان کے بارڈر تک تلاش کیا گیا مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طیارے کے حادثے سے پہلے پائلٹ کا کنٹرول روم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا اور ٹیک آف کے کچھ لمحے بعد ہی طیارے کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔‘
واضح رہے کہ 25 اگست 1989 کو گلگت سے پی آئی اے کی پرواز 404 اسلام آباد آتے ہوئے لاپتا ہو گئی تھی جس میں 49 مسافر اور عملے کے پانچ افراد سوار تھے۔