پہلی گاڑی ایک خواب کی مانند ہوتی ہے جس کے لیے انسان بڑی تگ و دو کرتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں سوزوکی کی آلٹو متوسط طبقے کا پہلا انتخاب رہی ہے۔
تاہم گزشتہ ماہ اس گاڑی کی فروخت میں 75 فیصد کی ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق جون میں نو ہزار 497 یونٹس فروخت ہونے کے بعد جولائی میں صرف دو ہزار 327 آلٹو بک ہو سکیں۔
اس نمایاں کمی کی کئی وجوہات میں جہاں کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں نمایاں رد و بدل اور قبل از وقت انوائسنگ کی پالیسی شامل ہے، وہیں حکومت نے دو ماہ قبل بجٹ میں چھوٹی گاڑیوں پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) 12.5 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا۔ ساتھ ہی ایک نئی این ای وی لیوی بھی نافذ کی گئی، جس کے تحت 1300 سی سی تک گاڑیوں پر ایک فیصد، 1301 سے 1800 سی سی تک دو فیصد اور اس سے بڑی گاڑیوں پر تین فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا گیا۔
مزید پڑھیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سوزوکی آلٹو کا انجن 660 سی سی ہے اور یہ سب سے چھوٹی گاڑیوں میں شمار ہوتی ہے، مگر پالیسی کے مجموعی اثرات اس کی قیمت اور مانگ پر براہِ راست اثر انداز ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان سوزوکی موٹرز کمپنی نے آلٹو کی قیمت بڑھا کر 33 لاکھ 26 ہزار 450 روپے کر دی، جس نے خریداروں کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
ڈیلرز کے مطابق آلٹو کا سب سے بڑا صارف طبقہ وہ ہے جو پہلی بار گاڑی خریدتا ہے لیکن اپنی محدود آمدن اور قیمت میں اضافے کے بعد وہ خریداری کی سکت کھو بیٹھا ہے۔
صورتحال کو مزید مشکل بنانے میں کمپنی کی ایک حکمتِ عملی بھی شامل رہی۔ پاکستان سوزوکی نے جون میں ہی جولائی اور اگست کے آرڈرز کی انوائسنگ مکمل کر دی تاکہ صارفین کو آنے والے ٹیکسوں کے اضافے سے بچایا جا سکے۔ یہ حکمتِ عملی وقتی طور پر کامیاب ثابت ہوئی اور جون میں فروخت غیرمعمولی سطح پر پہنچ گئی، لیکن اس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں خریداری کی طلب کم ہو گئی۔ اس طرح جولائی میں فروخت میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملی۔
سوزوکی آلٹو کی مقبولیت میں ایک بڑی وجہ آن لائن ٹیکسی سروسز بھی رہی ہیں۔ ان ڈرائیو اور یینگو جیسی رائیڈ ایپس کے ڈرائیوروں نے آلٹو کو اپنی کم ایندھن کھپت اور آسان مینٹیننس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اپنایا۔ یہی وجہ تھی کہ گذشتہ دو برسوں میں اس گاڑی کی طلب اچانک بڑھ گئی اور ڈیمانڈ زیادہ ہونے کے باعث اس کی قیمتیں اوپر گئیں۔ تاہم اب بڑھتے ہوئے ٹیکس، قیمت میں اضافے اور صارفین کی کمزور ہوتی قوتِ خرید نے نہ صرف نئے خریداروں کو متاثر کیا ہے بلکہ رائیڈ سروسز کے ڈرائیورز بھی نئی آلٹو خریدنے سے ہچکچانے لگے ہیں۔
دوسری جناب حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں نے بھی آلٹو کی مارکیٹ پر منفی اثر ڈالا۔ کئی شہروں میں پانی بھرنے اور تیز ریلوں کے باعث درجنوں آلٹو گاڑیاں بہہ گئیں یا ناقابلِ استعمال ہو گئیں۔ ان واقعات کی خبریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے صارفین کے ذہن میں یہ تاثر بھی مزید مضبوط ہوا کہ آلٹو پانی یا مشکل حالات میں کمزور ثابت ہوتی ہے۔ اس تاثر نے بھی مارکیٹ پر دباؤ ڈالا ہے اور خریداروں کے اعتماد کو متاثر کیا ہے، کیونکہ وہ اب گاڑی کے سکیورٹی فیچرز اور مضبوطی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
آٹو ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آلٹو کے فیچرز پر نظر ڈالی جائے تو یہ گاڑی اپنی کم ایندھن کھپت اور سادہ ڈیزائن کی وجہ سے خریداروں کو متوجہ کرتی ہے۔ اس کا چھوٹا انجن شہر کی سڑکوں کے لیے موزوں ہے، جبکہ آسان مینٹیننس اور سستے پرزے متوسط طبقے کے لیے سہولت کا باعث ہیں۔
کار ڈیلر ثاقب علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آلٹو کی کئی خامیاں بھی ہیں جنہیں صارفین مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بنیادی ماڈلز میں ایئر بیگز اور جدید سیفٹی فیچرز شامل نہیں، گاڑی کا اندرونی حصہ کشادہ نہیں اور لمبے سفر کے لیے اسے آرام دہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔‘
’یہی وجہ ہے کہ جب اس کی قیمت 30 لاکھ روپے سے اوپر پہنچی تو خریداروں نے سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ اتنی قیمت میں زیادہ بہتر فیچرز والی گاڑیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی مارکیٹ میں اس وقت آلٹو کی قیمت کے آس پاس چند متبادل آپشنز بھی موجود ہیں۔ پرنس پرل اور یونائیٹڈ براوو جیسی گاڑیاں اگرچہ نسبتاً نئی ہیں مگر ان میں پاور سٹیئرنگ، پاور ونڈوز اور الائے رمز جیسے فیچرز دستیاب ہیں، جو آلٹو کے بیسک ماڈلز میں شامل نہیں۔
ثاقب علی کا کہنا تھا کہ اسی طرح کچھ صارفین اس بجٹ میں کچھ سال پرانی ٹویوٹا یا سوک اور سٹی یا کلٹس کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ کشادہ، محفوظ اور بہتر پاورفل انجن کے ساتھ آتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں کورین اور چینی برانڈز نے بھی چھوٹی گاڑیوں کے سیگمنٹ میں دلچسپی دکھائی ہے اور ان کے ماڈلز فیچرز کے اعتبار سے آلٹو کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش لگتے ہیں، اگرچہ سروس اور ری سیل ویلیو میں ابھی سوزوکی کو برتری حاصل ہے۔
ماہرِ آٹو مارکیٹ جنید اقبال کے مطابق آلٹو کی فروخت میں کمی محض وقتی رجحان نہیں بلکہ یہ مستقبل میں انٹری لیول کار مارکیٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے بقول سوزوکی آلٹو ہمیشہ سے کم آمدن والے طبقے کے لیے پہلی پسند رہی ہے، لیکن جب ایک چھوٹی 660 سی سی گاڑی کی قیمت 35 لاکھ روپے تک پہنچ جائے تو صارف سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا وہ اتنی رقم ایک ایسی گاڑی پر خرچ کرے جس میں جدید فیچرز اور سیفٹی بھی نہیں۔ مارکیٹ میں متبادل موجود ہیں اور اگر کمپنی نے اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی نہ کی تو خریدار آہستہ آہستہ دوسرے آپشنز کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں۔