Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زیتون کا انقلاب‘: کیا پاکستان اسے عالمی منڈی تک پہنچا پائے گا؟

اولیو فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر سید یوسف علی شاہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں اس وقت سالانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ لیٹر زیتون کا تیل پیدا ہو رہا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں زیتون کی کاشت کے فروغ کے لیے حکومتی اور نجی دونوں سطحوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کے مطابق اس وقت ملک کے 50 ہزار ایکڑ رقبے پر زیتون کی کاشت کی جا چکی ہے اور اولیو فاؤنڈیشن پاکستان کے مطابق ملک میں زیتون کے ایک کروڑ سے زائد پودے لگائے جا چکے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں 51 آئل ایکسٹریکشن یونٹس اور چار کوالٹی لیبز قائم کی جا چکی ہیں۔ ان اقدامات کے تحت پاکستان کی خوردنی تیل کی درآمدات کم ہو رہی ہیں جس سے  زرِ مبادلہ کی بچت بھی ہو سکتی ہے۔
زیرِنظر رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان میں زیتون کی کاشت کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، زیتون کے پودوں سے کتنا تیل حاصل ہو رہا ہے، زیتون سے کون کون سی مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں، اور کیا پاکستان زیتون کے تیل کو بیرونِ ممالک فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
سب سے پہلے اگر سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر زیتون کی کاشت کامیابی سے مکمل ہو چکی ہے، جو نہ صرف خوردنی تیل کی درآمدات میں کمی کا باعث بن رہی ہے بلکہ دیہی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔
وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق ملک میں 51 آئل ایکسٹریکشن یونٹس اور چار کوالٹی لیبز قائم کی گئی ہیں جبکہ خواتین اور نوجوانوں کی ہزاروں کی تعداد کو اس ویلیو چین میں تربیت دی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں، 90 سے زائد سٹارٹ اپس زیتون پر مبنی کاروبار میں کامیابی سے اُبھر رہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پاکستانی برانڈ ’لورالائی اولیو‘ نے نیویارک مقابلے میں سلور ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اولیو ویلیو چین پالیسی 2030 زیتون کے شعبے کا جامع روڈمیپ فراہم کرتی ہے اور پاکستان آئی او سی کا مکمل رکن بننے کی جانب نمایاں پیش رفت بھی کر چکا ہے۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے پاکستان اولیو فاؤنڈیشن کے صدر سید یوسف علی شاہ سے رابطہ کیا اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ ملک میں نجی اور حکومتی سطح پر اولیو کی مارکیٹ کہاں کھڑی ہے؟
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پاکستان میں اولیو کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات ہو رہے ہیں اور اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد اولیو کے پودے لگائے جا چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صرف صوبہ پنجاب میں 40 لاکھ کے قریب زیتون کے پودے لگائے گئے ہیں اور اسی حساب سے دیگر صوبوں میں زیتون کے پودے لگائے جا رہے ہیں۔‘
سید یوسف علی شاہ نے کہا کہ ’ان کی فاؤنڈیشن پاکستان میں زیتون سے تقریباً 56 کے قریب مختلف مصنوعات تیار کر رہی ہے، جن میں آئل، مربہ، اچار، اولیو ٹی اوراس قسم کی مختلف مصنوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا فروٹ بھی مختلف ذائقوں میں بنا کر بیچا جا رہا ہے جب کہ ان میں سے 28 کے قریب ایسی مصنوعات ہیں جو کاسمیٹکس میں استعمال ہو رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، پرفیومز، صابن، شیمپو اور سیرم وغیرہ بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔‘

 خطہ پوٹھوہار … زیتون ویلی

سید یوسف علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’اولیو فاؤنڈیشن کی کاوشوں سے پنجاب حکومت نے خطۂ پوٹھوہار یعنی پنڈی، اٹک وغیرہ کو زیتون ویلی ڈیکلیئر کیا ہے اور اس میں بھرپور انداز میں اولیو کی کاشت کے علاوہ مختلف مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں۔‘

وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق ملک میں 51 آئل ایکسٹریکشن یونٹس اور چار کوالٹی لیبز قائم کی گئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے اولیو کے فروغ کے لیے کچھ ایسے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جن سے کسانوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، جیسا کہ پودوں کی بلامعاوضہ فراہمی، اس کے علاوہ سولر پر رعایت اور ساتھ ہی کچھ بنیادی مشینری بھی فراہم کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت پنجاب، وفاق اور خیبر پختونخوا کی حد تک کافی اقدامات ہو رہے ہیں، جہاں کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے جنہیں زیتون کی کاشت سمیت اولیو کے حوالے سے تمام تر معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔‘
زیتون کی کاشت اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے والے کراچی کے اکٹر فیاض عالم سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں خوردنی تیل کا استعمال بہت زیادہ ہے اور یہ خوردنی تیل نہ صرف صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں استعمال ہونے والا 85 فیصد خوردنی تیل بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ صرف 15 فیصد مقامی سطح پر تیار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہم مقامی سطح پر زیتون کے تیل کو فروغ دیں گے تو نہ صرف یہ ہماری صحت کے لیے بہتر ہوگا بلکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں زیتون کے شعبے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ متعلقہ سرکاری اداروں جیسا کہ محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت اور فوڈ سکیورٹی کی آپس میں کوآرڈینیشن نہیں ہوتی۔‘

فیاض عالم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں صرف ایک ہی طرح کا زیتون کا تیل نکالا جاتا رہا، جسے ایکسٹرا ورجن آئل کہتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وہ مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’بلوچستان میں بڑی مقدار میں جنگلی زیتون ہوتا ہے لیکن وہ چوں کہ محکمہ جنگلات کے ماتحت آتا ہے جس کی محکمہ زراعت کے ساتھ کوئی کوآرڈینیشن نہیں، اس لیے بڑی مقدار میں جنگلی زیتون ضائع ہو جاتا ہے۔‘
فیاض عالم نے کہا کہ ’اسی طرح فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ڈیپارٹمنٹ بھی زیتون کے تیل کے فروغ کے حوالے سے مناسب طور پر کوآرڈینیٹ نہیں کر رہا کہ مختلف علاقوں میں ریسرچ، لیب ورک اور اس پھل سے مصنوعات کیسے بہتر طریقے سے تیار کی جائیں۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں زراعت کے حوالے سے ایک تھنک ٹینک بنائے جو جنگلات میں موجود ایسے پودوں اور اشیا پر ریسرچ کرے اور انہیں برآمد کر کے پاکستان کے لیے قیمتی زرِمبادلہ حاصل کیا جائے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’زیتون خوردنی تیل حاصل کرنے کا ایک قدیم ترین پھل ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر بہت دیر بعد کام ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2020 کے بعد ملک میں اس کی بڑے پیمانے پر کاشت شروع کی گئی۔
فیاض عالم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں صرف ایک ہی طرح کا زیتون کا تیل نکالا جاتا رہا، جسے ایکسٹرا ورجن آئل کہتے ہیں جو فریش فروٹ سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ دنیا میں زیتون کی کھل سے بھی تیل نکالا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، زیتون کے پتوں کا قہوہ دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کی مختلف مصنوعات پاکستان میں زیادہ رواج نہیں پا سکیں۔‘
ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق زیتون کی کھل کو جما کر اس کی اینٹ بنا کر بطور ایندھن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ عمل پاکستان میں نہیں ہو رہا۔

ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق زیتون کی کھل کو جما کر اس کی اینٹ بنا کر بطور ایندھن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اُن کے خیال میں پاکستان میں زیتون کے شعبے کو مزید فروغ دینے کے لیے حکومت کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں اس حوالے سے وفاقی سیکریٹری فوڈ اینڈ سکیورٹی  ایک بنیادی عہدہ ہے، جسے چند مہینوں بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ پالیسیز کے تسلسل کے لیے کم از کم دو سال تک ان عہدوں پر موجود افراد کو ایک جگہ برقرار رکھا جائے۔

 زیتون کی کاشت بڑھ رہی ہے لیکن تیل کی قیمت کم کیوں نہیں ہو رہی؟

ڈاکٹر فیاض عالم نے زیتون کے تیل کی قیمت زیادہ ہونے کے حوالے سے بتایا کہ ’پاکستان میں ابھی زیتون کی پیداوار کم ہے۔ جیسے جیسے پیداوار بڑھے گی اور تیل جلد اور زیادہ مقدار میں مارکیٹ میں آئے گا، تو اس کی قیمت بھی کم ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو زیتون کی قیمت مقرر نہیں کرنی چاہیے اور اسے مارکیٹ فورسز پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان میں زیتون کے تیل کی قیمت مختلف معیار اور برانڈ کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ ایک لیٹر زیتون کا تیل عام طور پر تقریباً 1,700 سے 5,500 روپے کے درمیان دستیاب ہے، جہاں ایکسٹرا ورجن آئل مہنگا اور پوماس یا عام قسم کا آئل نسبتاً کم قیمت ہے
زیتون کے پودوں میں سے کتنے فیصد پھل دے رہے ہیں اور کتنا تیل حاصل کیا جا رہا ہے، اور کیا اسے ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق پاکستان میں ابھی زیتون کی پیداوار کم ہے۔ جیسے جیسے پیداوار بڑھے گی، تو اس کی قیمت بھی کم ہو سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان سوالات کے جواب میں زیتون پر کام کرنے والے ماہر ڈاکٹر وقاص چیمہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں اس وقت تقریباً 70 لاکھ کے قریب پودے لگائے گئے ہیں لیکن ان میں سے 20 فیصد پودے ایسے ہیں جو 100 فیصد فروٹنگ پر آ چکے ہیں اور انہی پودوں سے آئل پروڈیوس ہو رہا ہے اور  دیگر مصنوعات بھی بن رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انہی وجوہات کے باعث پاکستان فی الحال بڑی مقدار میں زیتون کا تیل پیدا نہیں کر رہا اور اس وقت یہ ایکسپورٹ کے قابل سطح پر نہیں پہنچا، تاہم مستقبل قریب میں پاکستان کی پیداوار اور کیپیسٹی میں بڑا اضافہ ممکن ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے تقریباً چار ارب روپے مالیت کا زیتون کا تیل بیرون ممالک سے منگواتا تھا لیکن اب پاکستان میں زیتون کی کاشت میں اضافے کے بعد اس کی مقدار نصف رہ گئی ہے۔
اس بارے میں اولیو فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر سید یوسف علی شاہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں اس وقت سالانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ لیٹر زیتون کا تیل پیدا ہو رہا ہے، تاہم پیداوار موسم اور فروٹ سے حاصل ہونے والی دیگر مصنوعات کی وجہ سے کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتی ہے تو اس وجہ سے اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔‘

شیئر: