قومی و صوبائی اسمبلی کے 13 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لیے ووٹنگ جاری
صوبہ پنجاب میں آج قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے سات حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ پولنگ کا عمل صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔
لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، سرگودھا، میانوالی، مظفرگڑھ اور ہری پور کے مختلف حلقوں میں پولنگ کے عمل کو شفاف اور پرامن بنانے کے لیے فوج اور سول آرمڈ فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
ان حلقوں میں سب سے دلچسپ مقابلہ لاہور کا سمجھا جا رہا ہے، جس سے اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ حکومت حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ ن شہر پر اپنا سیاسی تسلط بحال کر پائی ہے یا نہیں۔
آج کے انتخابات میں لاہور کا حلقہ این اے-129 پنجاب کی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ لاہور شہر کے مرکزی اور تاریخی علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں شہری ووٹرز کی اکثریت ہے جہاں متوسط طبقے، تاجر برادری اور سیاسی خاندانوں کی مضبوط گرفت ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق این اے-129 لاہور کا ایک اہم حلقہ ہے اور یہ الیکشن بھی اہم ہے کیونکہ یہ شہر کے مرکزی حلقوں پر مشتمل ہے، یہاں کی جیت کا براہ راست تعلق لاہور کی مجموعی سیاسی سمت سے ہوتا ہے۔
اس حلقے کی نشست سابق ایم این اے میاں محمد اظہر کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی جو سنہ 2024 کے عام انتخابات میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) آزاد امیدوار کی حیثیت سے 103,739 ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔
میاں اظہر مسلم لیگ ق کے بانیوں میں سے تھے اور ان کے بیٹے حماد اظہر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں۔
این اے-129 لاہور کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس میں درج ذیل اہم علاقے شامل ہیں: اسلام پورہ، سنت نگر اور آئی بی سی۔ یہ مرکزی رہائشی علاقے ہیں جہاں متوسط طبقے کی آبادی ہے اور اکثر یہاں سیاسی جلسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح انارکلی اور ہربنس پورہ تاریخی بازاروں اور تجارتی مراکز والے علاقے ہیں جہاں تاجر ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے۔ شاد باغ اور بیگم پورہ کے علاقے بھی اسی حلقے کا حصہ ہیں۔ یہ حلقہ تقریباً چار لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل ہے۔
آج کے ضمنی انتخابات مختلف وجوہات کی بنا پر خالی ہونے والی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے منعقد کیے گئے ہیں۔ سنہ 2024 کے عام انتخابات کے بعد اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے یہ پہلے ضمنی انتخابات ہیں۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کو کوئیک ری ایکشن فورس کی حیثیت سے تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ تعیناتی 22 سے 24 نومبر تک ضمنی انتخابات والے حلقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہو گی۔
یہ انتخابات پنجاب کی سیاسی کشمکش کی عکاسی بھی کریں گے جہاں مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ابھی بھی جماعت کے طور پر اپنے انتخابی نشان سے محروم ہے۔
