پاکستان میں زراعت کا شعبہ ہمیشہ سے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا آیا ہے لیکن پانی کی کمی، بڑھتی لاگت، موسمیاتی تبدیلی اور پرانے زرعی طریقوں کے باعث اس شعبے کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
معیشت کا 20 فیصد سے زائد حصہ اسی شعبے پر منحصر ہے جبکہ 40 فیصد سے زیادہ افرادی قوت کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار دنیا کے کئی ممالک سے کم ہے۔
گندم کی اوسط پیداوار پاکستان میں تقریباً 30 من فی ایکڑ ہے جبکہ چین میں یہی پیداوار 50 من سے بھی اوپر جا چکی ہے۔
مزید پڑھیں
اسی طرح کپاس اور چاول میں بھی ہماری کارکردگی عالمی معیار سے پیچھے ہے جبکہ پانی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں زرعی پانی کا تقریباً 40 فیصد ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ جدید آبپاشی کے طریقے رائج نہیں ہو سکے۔
ایسے میں چین سے تربیت حاصل کرنے والے پاکستان کے زرعی گریجویٹس کم پانی، کم لاگت اور زیادہ پیداوار کے لیے ٹیکنالوجی، معیاری بیج اور ڈیجیٹل نظم و نسق کو ایک ساتھ جوڑنے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہے ہیں تاکہ پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کے بعد حکومت نے ایک بڑے پروگرام کے تحت ایک ہزار تک پاکستانی طلبہ و ماہرین کو چین کی نمایاں زرعی جامعات اور تحقیقی مراکز میں بھیجا، جن کا پہلا بیچ جولائی 2025 میں فارغ التحصیل ہوا اور اگلے بیچ بھی روانہ ہو چکے ہیں۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ چین کے سمارٹ ایگریکلچر ماڈلز جیسے اے آئی پر مبنی فصلوں کی نگرانی، درست آبپاشی اور کھاد کے انجیکشن، اور موسمیاتی لچکدار کاشت کو سیکھ کر یہی طریقے پاکستان میں رائج کیے جائیں۔
وزارت منصوبہ بندی کے مطابق اس تربیتی پروگرام میں سب سے پہلے ’سمارٹ فارمنگ’ کا عملی ماڈیول پڑھا جس میں سینسرز، ڈرونز، کمپیوٹر وژن اور سیٹلائٹ/آئی او ٹی ڈیٹا سے فصل کی صحت، نمی اور غذائی ضروریات کی حقیقی وقت میں پیمائش شامل ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت دوسرا بڑا سیکھنے کا میدان بیجوں کی بہتری، ہائبرڈ نسلیں اور بیماریوں کے خلاف مضبوط اقسام کی تیاری ہے۔

تیسرا اہم شعبہ آبپاشی اور پانی بچت کی تکنیکیں ہیں۔ چین میں گرین ہاؤس/لو ٹنل کاشت، ڈرِپ اور سپرنکلر سسٹمز، پلاسٹک ملچنگ اور دقیق کھاد و آب (فَرٹیگیشن) جیسے طریقے پڑھائے گئے جن کی وجہ سے فی قطرہ زیادہ پیداوار ممکن ہوتی ہے۔ اس تربیت کا ایک نمایاں جزو یہ ہے کہ کسان موبائل فون سے کھاد اور پانی کی مقدار کنٹرول کر سکیں گے اور حساس مراحل جیسے پھوٹنے، پھول آنے یا دانہ بھرنے پر سپلائی خودکار شیڈول کے مطابق ہو۔
چوتھا حصہ مشینی زراعت، بعد از برداشت نظم و نسق اور ویلیو چین مینجمنٹ سے متعلق تھا۔ چین نے بڑے پیمانے پر کاٹن/مکئی/سبزیوں کی میکانائزڈ کاشت، کمبائن ہارویسٹرز، سیڈرز اور ٹرانسپلانٹرز کی آپٹیمائزڈ سیٹنگز، اور سرد سلسلہ (کولڈ چین) و گریڈنگ/پیکنگ کے جدید معیارات میں پاکستانی گروپس کو تربیت دی تاکہ پاکستان میں پیداوار کے ساتھ مارکیٹ میں بہترین معیار اور قیمت بھی حاصل ہو سکے۔
نصابی تعلیم کے بعد پاکستان میں عملدرآمد کیسے ہوگا؟
وزارت منصوبہ بندی کے مطابق یونیورسٹی آف فیصل آباد کی مشترکہ لیب اور صوبائی محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر سمارٹ سینسرز اور اے آئی مانیٹرنگ کے پائلٹس پنجاب کے منتخب علاقوں میں چل رہے ہیں تاکہ پانی، یوریا اور سپرے کے درست استعمال سے فی ایکڑ پیداوار میں بہتری لائی جا سکے اور نتائج لمحہ بہ لمحہ کسان کو دکھائے جا سکیں۔
دوسرا مرحلہ ہیومن کیپسٹی کا ہے جس کے تحت چین سے تربیت لینے والے واپسی پر ان گریجویٹس کو کاٹن/گندم بیلٹس اور زرعی جامعات میں جگہ دے کر ہزاروں کسانوں تک علم منتقل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ نئی بایوہیلتھی ایگریکلچر لیب اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن پارک جیسے منصوبوں پر چین اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے تاکہ بیجوں کی کوالٹی، زرعی ادویات کے محفوظ متبادلات، اور آب و ہوا سے ہم آہنگ کاشت کے حل پاکستان میں ہی تیار اور آزمائے جائیں۔ یہ پارک/لیب ماڈل مقامی سٹارٹ اپس اور نجی شعبے کو بھی شامل کرے گا تاکہ درآمدی انحصار کم ہو اور مقامی جدت کی رفتار بڑھے۔
اس تمام پس منظر میں ایک وسیع تر پالیسی فریم ورک بھی سامنے آیا ہے۔ جس سے توقع ہے کہ سی پیک کے اگلے مرحلے میں زرعی ٹیکنالوجی، میکانائزیشن اور ایگرو پروسیسنگ پر سرمایہ کاری بڑھے گی۔

ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اور کسانوں کی تربیت
وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے بتایا کہ یہ طلبا واپسی کے بعد مختلف زرعی تحقیقی اداروں اور جامعات کے ساتھ مل کر پائلٹ پروجیکٹس شروع کریں گے۔ ان پروجیکٹس میں ڈرون ٹیکنالوجی سے کیڑوں پر قابو پانے، فصلوں کی نگرانی اور پانی کے مؤثر استعمال پر توجہ دی جائے گی۔ ساتھ ہی کسانوں کی تربیت کے لیے خصوصی ورکشاپس بھی رکھی جائیں گی تاکہ یہ علم صرف تحقیق تک محدود نہ رہے بلکہ عملی کھیتوں تک پہنچے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا راستہ زراعت سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہمارے نوجوان اگر جدید سائنسی طریقے اپنائیں گے تو خوراک کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ برآمدات بھی بڑھا سکیں گے۔
چین میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالبعلم محمد زاہد کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ کس طرح چین میں ایک ایک انچ زمین کو سائنسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’اگر ہم پاکستان میں ڈرپ اریگیشن اور جدید گرین ہاؤسز کے نظام کو اپنالیں تو پانی کی کمی کے باوجود بھرپور پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔'
انھوں نے کہا کہ چین میں انہیں مقامی کسانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جہاں انہوں نے عملی طور پر سیکھا کہ کس طرح مٹی کے تجزیے کے ذریعے کھاد اور بیج کا درست انتخاب کیا جاتا ہے۔
چین سے تربیت حاصل کرنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے سیکھے ہوئے ماڈلز کو پالیسی اور عملی سطح پر اپنایا تو پاکستان اپنی زرعی صلاحیت کو نئے دور میں لے جا سکتا ہے۔