پاکستانی ہنرمندوں کے لیے نئی مارکیٹ، اردن نے ورک ویزوں پر پابندی ختم کر دی
پاکستانی ہنرمندوں کے لیے نئی مارکیٹ، اردن نے ورک ویزوں پر پابندی ختم کر دی
بدھ 3 ستمبر 2025 9:47
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
غیرملکی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اردنی حکومت نے مالی ضمانتوں سے متعلق سخت اصول متعارف کرائے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستانی ورکرز بالخصوص ماہر کاریگروں کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کی ایک نئی منڈی کے دروازے کھل گئے ہیں۔
اردن نے غیرملکی ورکرز کی بھرتی پر عائد عمومی پابندی میں نرمی کرتے ہوئے مخصوص شعبوں اور صنعتوں کے لیے ورک ویزے جاری کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
اردن میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک خط بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ اسلام آباد کو ارسال کیا جس کے ساتھ اردنی وزارتِ محنت کے سرکلرز منسلک تھے جن میں نئی پالیسی کی تمام تفصیلات درج تھیں۔
اردن کی وزارتِ محنت کی نئی پالیسی کے مطابق سب سے بڑی رعایت غیرملکی ملکیت رکھنے والے اداروں کو دی گئی ہے۔ ان میں مکمل غیرملکی ملکیت والی کمپنیاں، وہ کمپنیاں جن میں کم از کم 50 فیصد غیرملکی سرمایہ کاری موجود ہو، ان کی ذیلی شاخیں یا برانچیں شامل ہیں۔ ان اداروں کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ خصوصی مہارت رکھنے والے غیرملکی ورکرز کو بھرتی کر سکیں گے اور اس کے لیے انہیں مقامی اردنی ورکرز کے ساتھ ایک مخصوص تناسب برقرار رکھنے کی شرط پوری نہیں کرنا ہو گی۔ تاہم اس بھرتی کے لیے ایک مقررہ ’خصوصی مہارت فیس‘ ادا کرنا لازمی ہو گا۔
پالیسی کے مطابق وہ غیرملکی کمپنیاں جو براہِ راست کاروباری سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ علاقائی دفاتر کے طور پر کام کرتی ہیں، انہیں بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق ماہر غیرملکی ملازمین بھرتی کر سکیں۔ البتہ اس زمرے میں یہ لازمی ہو گا کہ ہر غیرملکی ماہر کے ساتھ ایک اردنی ورکر کو بھی ملازمت دی جائے۔
اردن کی گارمنٹ اور سلائی کی صنعت، جو ملک کی ترقیاتی زونز میں سب سے بڑی آجر سمجھی جاتی ہے، کے لیے بھی نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ان ہدایات کے مطابق اس شعبے کے ادارے اب غیرملکی ورکرز کو تمام مجاز پیشوں میں ملازمت دے سکیں گے تاہم ان کا کل ورک فورس کم از کم 30 فیصد اردنی ملازمین پر مشتمل ہونا لازمی ہے۔
اس کے علاوہ انتظامی عہدوں کے لیے مزید سخت ضوابط لاگو کیے گئے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں غیرملکی انتظامی عملہ کل غیرملکی ورک فورس کے تین فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
غیرملکی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اردنی حکومت نے مالی ضمانتوں سے متعلق سخت اصول متعارف کرائے ہیں۔
اب آجر کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ بینک گارنٹی جمع کروائے جس میں خودکار تجدید کی شق شامل ہو۔ یہ گارنٹی اس وقت تک منسوخ نہیں ہو سکے گی جب تک رہائش اور بارڈرز ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے یہ سرکاری تصدیق نہ دی جائے کہ متعلقہ کمپنی کے تمام غیر ملکی ملازمین ملک چھوڑ چکے ہیں، چاہے ان کی حیثیت درست ہو، منسوخ ہو چکی ہو یا ختم ہو گئی ہو۔
اردن کی وزارتِ محنت کی نئی پالیسی کے مطابق سب سے بڑی رعایت غیرملکی ملکیت رکھنے والے اداروں کو دی گئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ شرط اس مقصد کے لیے عائد کی گئی ہے کہ کسی بھی غیرملکی کارکن کو ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے یا اپنے حقوق سے محروم ہونے کی نوبت نہ آئے۔
اردن کا یہ فیصلہ ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا مقصد قومی لیبر مارکیٹ کے تحفظ اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضروریات کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔
اردن میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کیونکہ ملک کی بڑی آبادی روزگار کے لیے خلیجی اور مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں پر انحصار کرتی ہے۔ اردن کی طرف سے متعارف کرائی گئی یہ چھوٹ پاکستانی ہنرمندوں اور مزدوروں کے لیے ایک منظم راستہ فراہم کر سکتی ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں صنعتی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو افرادی قوت کی ضرورت ہے۔
اس سے پاکستانی محنت کشوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کے نئے دروازے کھل رہے ہیں جو مستقبل میں ترسیلاتِ زر میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
سفارت خانے نے وزارت سمندر پار پاکستانیز، بیورو آف امیگریشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا ہے کہ اردن میں غیرملکی کمپنیاں ہنرمندوں کی تلاش میں ہیں، اس لیے اس سلسلے میں اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستانی ورکرز کو یہاں بھجوایا جا سکے۔
سفارت خانے نے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کی فہرست بھی فراہم کی جن کو ورک ویزے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ان سے رابطے کرکے پاکستانی ورک فورس کی بھرتی کے لیے ورک ویزے حاصل کر سکیں۔