خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے کیمپ میں فراہم کیے گئے کھانے میں سے مبینہ طور پر مینڈک نکلنے کے بعد انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق گورنمنٹ ڈگری کالج میں مقیم تحصیل ماموند کے متاثرین کے سالن سے مرا ہوا مینڈک نکلا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی ویڈیو پوسٹ کی گئی۔
متاثرین کے مطابق ’غیرمعیاری کھانے کی شکایات پہلے دن سے تھیں مگر اندازہ نہیں تھا کہ سالن سے چکن بوٹی کے بجائے مینڈک نکلے گا۔‘
مزید پڑھیں
-
ضلع باجوڑ میں تین دہائیوں پرانے خونریز تنازع کا اختتام کیسے ہوا؟Node ID: 889765
ان کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ٹھیکہ واپس لیا جائے تاکہ متاثرین کو معیاری کھانا مل سکے۔
سماجی کارکن ظفر اللہ باجوڑی کے مطابق متاثرین کے کھانے سے مبینہ طور پر مینڈک نکلا جس کی نشاندہی ماموند گاؤں کے نوجوانوں نے کی ہے۔
متاثرین کا دعوی ہے کہ اس کھانے کے بعد تین افراد کی حالت بھی بگڑ گئی تھی اور سالن کو تلف کر دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ماموند کے لوگ گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ریلیف دینے کے لیے انتظامیہ کو چاہیے کہ اس معاملے کی انکوائری کرے۔
انتظامیہ کا نوٹس
متاثرین کے کھانے میں مبینہ طور پر مینڈک نکلنے کے واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر باجوڑ کی ہدایت پر باورچی اور ٹھیکیدار کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق فی الوقت متعلقہ ٹھیکیدار کا ٹھیکہ منسوخ کر کے نئے ٹھیکیدار کے حوالے کیا گیا ہے تاکہ متاثرین کو کھانے کی فراہمی متاثر نہ ہو سکے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متاثرین کے کھانے کی مقدار اور معیار کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ ٹیمیں موجود ہیں اور واقعے کی انکوائری ہو رہی ہے۔
دوسری جانب باجوڑ کے بہت سے شہری اس واقعے کو ٹھیکیدار کے خلاف سازش قرار دے کر اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا موقف ہے کہ ٹھیکیدار کو ہٹانے کے لیے ایسی گھناونی حرکت کی گئی جس کی انکوائری ہونی چاہیے۔
متاثرین کا احتجاج
باجوڑ کے متاثرہ گاوں عنایت کلے اور بھائی چینہ کے متاثرین نے کچھ روز قبل ناقص خوراک کی فراہمی پر احتجاج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خوراک کی تقسیم میں بے ضابطگیاں کی جا رہی ہیں اور کھانا نہ صرف وزن میں کم ہوتا ہے بلکہ غیرمعیاری بھی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند سمیت کچھ علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیے جارہے ہیں جس کے باعث مقامی لوگ گھروں کو چھوڑ کر انتظامیہ کی جانب سے قائم ٹی ڈی پی کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔