نظام ڈیلیور نہیں کر رہا، ہم نے بلدیاتی اداروں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یہ ادارے بے دست و پا ہیں۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی ہمارے اعمال کا بوجھ ہیں۔ سینیٹ میں پہنچنے والے ٹھیکیدار ہم سیاست دانوں کی بولیاں لگاتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں خریدتے ہیں۔ ہم بِک جاتے ہیں۔ ٹھیکیدار کمپنی نے سیالکوٹ کو تباہ کر دیا۔
’یہ ٹھیکیدار بہت امیر لوگ ہیں، یہ کس طرح سینیٹ میں پہنچے؟ ڈکٹیٹرز نے ڈیم بنانے پر اتفاق رائے کروا لیا، ہم ایسا نہ کرسکے، ہم سیاست دانوں کی اپنی دُکان داری جو ہوتی ہے۔ یہ خود احتسابی کا وقت ہے وغیرہ وغیرہ۔‘
مزید پڑھیں
-
تبدیلی اُدھر نہیں تو اِدھر ہی کر دیکھیں! اجمل جامی کا کالمNode ID: 887718
-
فرزندانِ خان قاسم اور سلمان پاکستان آئیں گے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 892068
-
گنڈاپوری نسخہ: کرسی بھی محفوظ اور نظام بھی، اجمل جامی کا کالمNode ID: 892352
یہ معروف ڈائیلاگز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ دفاع، مسلم لیگ ن کے سینیئر ترین رہنما جناب خواجہ محمد آصف کے ہیں جو چند روز قبل قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ زیڈ کے بی نامی کمپنی اور سیالکوٹ کی تباہی کی داستان بیان کرنے سے پہلے خواجہ صاحب پرتگال کی کہانی بھی سُنا چکے ہیں۔ اشرافیہ اور بیوروکریٹس کیسے جمع پونجی پرتگال منتقل کر چکے؟
اس بابت ایک سے زائد ٹویٹس میں مُدعا بیان کرچکے۔ وہ کہانی ابھی ادھوری ہی تھی کہ جناب خواجہ نے نظام کی ناکامی کا اعتراف کرنا شروع کر دیا۔
خاکسار مسلسل ورطۂ حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ اچانک جنابِ خواجہ کو کیا سُوجھی؟ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنی ہی سرکار کے خلاف اپنے ہی نظام کے خلاف چارچ شیٹ پر چارج شیٹ جاری کیے جا رہے ہیں؟
وزیرِ موصوف تو ابھی چند روز پہلے تک ہائبرڈ نظام کے فیوض وبرکات پر سیرحاصل گفتگو کرتے پائے گئے۔ اس گفتگو کا آغاز وزیرِ دفاع نے عرب نیوز کے ہاں ایک انٹرویو کے دوران کیا اور پھر ہائبرڈ نظام کی افادیت پر اَن گِنت مقامی چینلز کے پروگراموں میں بھی انہوں نے موثر ترین دلائل دیے۔
اب ایسا کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ کہ اچانک جنابِ خواجہ کو خود احتسابی کی سُوجھی؟ اچانک اِسی نظام کے نقائص نظر آنا شروع ہو گئے۔
اچانک امیر ٹھیکیداروں کے سامنے بے بسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ اچانک بلدیاتی نظام کا بیڑہ غرق کرنے کا اعتراف کر ڈالا۔ ایسا کیا ہوا؟ حکومتوں کے خلاف چارج شیٹ تو عموماً اپوزیشن رہنما پیش کیا کرتے ہیں۔

حکومت کی ناقص پالیسیوں اور ناکامیوں کا ڈھنڈورا تو حزبِ اختلاف کے رہنما پیٹا کرتے ہیں۔ خود وزیرِ دفاع اور سینیئر ترین لیگی رہنما اس مِشن پر کیوں گامزن ہوئے؟
ابھی اس بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی سعی جاری تھی کہ اچانک 24 گھنٹے کے وقفے کے بعد پنڈی سے حنیف عباسی صاحب اسی ایوان سے مخاطب ہوئے۔ نام لیے بغیر جناب خواجہ کو تقریباً دھمکی ہی دے ڈالی۔ فرمایا کہ:
’ہمیں شوق ہوتا ہے کبھی بیوروکریسی کو گالی دیتے ہیں، کبھی سیاست دانوں اور کبھی اپنے ہی نظام کو ہائبرڈ کہہ دیتے ہیں۔ اگر نظام اتنا ہی گندا، لوگ اتنے ہی بُرے ہیں اور یہی کچھ کہنا ہے تو حکومت سے اُٹھ کر اپوزیشن میں چلے جائیں۔خُدا کا خوف کریں کچھ اور چیزیں وائرل ہوگئیں تو کیا ہو گا؟‘
حنیف عباسی صاحب نے مزید کہا کہ ’40 سال نظام کا حصہ رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ راولپنڈی میں تجاوزات ہوں اور میں کہوں کہ اس میں قصوروار میں نہیں۔‘
’آپ کہہ رہے ہیں نظام گندا ہے، آپ 40 سال اس نظام کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت ہو یا دفاع، یہ مضبوط ہاتھوں میں ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم اس ایوان کا تقدس خُود پامال کرتے ہیں۔اپنے وائرل ہونے کے لیے وزیراعظم اور وزیراعلٰی کو ڈِس کریڈٹ کرتے ہیں، اپنے آدھا کلو گوشت کی خاطر پُوری بھینس ذبح کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔‘
جناب عباسی کو سُنا تو معلوم ہوا کہ یہ سیالکوٹ کے خواجہ جی کے لیے دراصل ایک اہم ترین پیغام ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پیغام جناب عباسی کا ذاتی تو نہیں ہو سکتا۔
یہ الگ بات کہ دونوں لیگی رہنماؤں کی بول چال بھی بند ہے مگر خاکسار کے ذرائع بتلاتے ہیں کہ یہ پیغام دراصل اعلٰی قیادت کے مشورے کے بعد ہی جاری کیا گیا۔ پیغام واضح ہے، زیادہ مسئلہ ہے تو راستے سے ہٹ جائیں، سکون کریں۔
لیکن اصل سوال پھر وہی ہے، جنابِ خواجہ کو یہ سب اب ہی کیوں سُوجھا؟ کیا ٹھیکیدار کمپنی پہلی بار منظرِعام پر آئی ہے؟ کیا اسی کمپنی کی تعریفیں ماضی میں وزیراعظم نواز شریف نہیں کیا کرتے تھے؟
کیا یہی کمپنی میٹرو ٹرین اور اورنج لائن ٹرین سمیت اہم ترین ٹھیکوں کا حصہ نہیں رہی؟ کیا سیالکوٹ کی حالتِ زار اب بِگڑی ہے؟ کیا جنابِ خواجہ 1991 سے سیالکوٹ کی نمائندگی نہیں کر رہے؟ تو یہ تقریباً 35 برس بعد سیالکوٹ کی حالتِ زار کیسے یاد آئی؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی طوطے میں جان پھنسی ہوئی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی بڑے طوفان سے پہلے مقبول نعرے لگائے جا رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ 2018 اور 2024 میں آپ کی فرمائشیں جس انداز میں پوری ہوئیں اب وہ سیالکوٹ کے ایک حالیہ کیس کے تناظر میں پوری نہیں ہو پا رہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب بے بسی ہے؟
بقول شاعر:
بنا رہا ہوں میں فہرست چھوٹے لوگوں کی
ملال یہ کہ بڑے نام اِس میں آتے ہیں
ہاں اگر احتساب کرنا ہی ہے تو پھر پورا سچ بولیں۔ پہلے پرتگال کی کہانی کو مکمل کیجیے، نام لیجے ان افسران کے جو جمع پونجی باہر لے جا چکے، پھر ٹھیکیدار کو بے نقاب کیجیے، بتائیں کب، کیسے اور کیوں اُسے ٹھیکے ملے۔
بھرپور تسلی کے ساتھ جب تصویریں بے نقاب ہو جائیں تو وزارت کو ٹھوکر مار کر عوام کے پاس چلیں جائیں، شاید حالیہ انتخابات کے ہنگام لگی سیاہی مِٹ جائے۔
کیونکہ یار دہے کہ اہلِ سیالکوٹ سیورج لائن بیٹھنے اور سیلاب سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ فروری 2024 کے جھرلو پر بھی نالاں ہیں۔