Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی وڈ کے عظیم ولن پریم چوپڑا جنہیں سکرین پر دیکھ کر فلم بین سہم جاتے

معروف ہدایت کار لیکھ ٹنڈن نے اوما کا رشتہ پریم چوپڑا کے لیے تجویز کیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ بالی وڈ کے ایک ایسے اداکار کی زیست کا بیاں ہے جسے سب سے زیادہ ’ناپسند‘ کیا گیا۔ وہ جب بڑے پردے پر دکھائی دیتا تو فلم بین سہم جاتے۔ وہ بہت سوں کو خوابوں میں بھی ڈرا دیا کرتا تھا۔ بات ہو رہی ہے بالی وڈ کے عظیم ترین ولن پریم چوپڑا کی جو آج ہی کے روز 23 ستمبر 1935 کو لاہور میں پیدا ہوئے مگر کبھی اپنی جنم بھومی واپس نہ آ سکے۔
پریم چوپڑا کو اگرچہ لاہور آنے کی دعوت بھی ملی مگر غالباً بے مثل موسیقار او پی نیئر کی طرح اپنی جنم بھومی کا رُخ کرنا ان کے زخم تازہ کر دیتا۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انہیں پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا الحق نے لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’تقسیم کے وقت وہ اپنے خاندان کے ساتھ شملہ منتقل ہو گئے تھے۔ وہ لاہور میں کرشنا گلی (ریلوے روڈ گوالمنڈی) میں رہتے تھے۔ وہاں کئی گلیاں تھیں، میرا گھر گلی نمبر پانچ میں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’برسوں بعد پاکستان میں کسی نے ان کا پرانا گھر ڈھونڈ نکالا اور اسے ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا۔‘
پریم چوپڑا نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ضیا الحق صاحب کی طرف سے دعوت ملی تھی۔ اس وقت میں دہلی میں تھا۔ میں، شتروگھن سنہا اور یش جوہر ساتھ جانے والے تھے لیکن اسی دن میں بہت مصروف ہو گیا اور اچانک بخار بھی ہو گیا، اس لیے سفر ممکن نہ ہوا۔‘
انہوں نے مشہور پنجابی کہاوت بھی دہرائی کہ ’جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا نئیں‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔)
پریم چوپڑا نے مزید بتایا کہ ’اُس وقت لاہور ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے اور وہ تقسیم کے بعد شملہ منتقل ہو گئے۔ ہم نے سنہ 1947 میں تقسیم سے سات روز قبل لاہور چھوڑا تھا۔ میں سنتا تھا کہ ہر طرف ہنگامہ برپا ہے مگر میں اُس وقت کچھ زیادہ سمجھ نہیں پاتا تھا اور اپنی ہی دنیا میں کھویا رہتا تھا۔‘
اداکار کے والد اگرچہ یہ چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر ان کا جھکاؤ فلموں کی طرف تھا اور وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) جا کر اپنی قسمت آزمانے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ ذکر کیا تھا کہ ان کے والد نے ان کی اس خواہش پر کس طرح کا ردِعمل ظاہر کیا۔
’جب میں شملہ سے بمبئی آیا تو میرے والد نے کہا، میں تمہارے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا، لیکن یہ ضرور پیشِ نظر رکھنا کہ اداکاری کوئی محفوظ پیشہ نہیں ہے۔ اگر تم بمبئی جانا چاہتے ہو تو ساتھ ہی کوئی نوکری بھی ضرور کرنا۔‘

پریم چوپڑا کے والد چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر ان کا جھکاؤ فلموں کی طرف تھا۔ (فائل فوٹو: انسٹاگرام)

اداکار نے اپنے والد کی نصیحت کو سنجیدگی سے لیا اور بمبئی پہنچ کر اخبار ٹائمز آف انڈیا کے سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہ بنگال، اڑیسہ اور بہار کے انچارج تھے اور ہر ماہ 20 دن سفر پر رہتے تھے۔
پریم چوپڑا نے اپنی ذہانت سے یہ سفر مختصر کر لیا۔ وہ اپنے ایجنٹوں کو فون کر کے ریلوے سٹیشن پر بلوا لیتے تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور جلد واپسی ممکن ہو سکے۔ اس طرح ان کا جو دورہ عام طور پر 20 دن کا ہوتا تھا، وہ صرف 12 دنوں میں مکمل ہو جاتا اور باقی وقت وہ مختلف فلمی سٹوڈیوز کے چکر لگانے میں گزارتے۔
اداکار کے سینیئر کو ان کے خوابوں کا علم تھا اور انہوں نے ہمیشہ پریم چوپڑا کی حوصلہ افزائی کی۔
پریم چوپڑا نے اپنے اسی انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ ’ایک ایسے ہی ٹرین کے سفر کے دوران انہیں پنجابی فلم ’چوہدری کرنیل سنگھ‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پیشکش ہوئی۔‘
کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے لیے انہیں اڑھائی ہزار روپے معاوضہ ملا تھا۔
پریم چوپڑا کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ان کی فلم کی ریلیز سے قبل ہی ان کی والدہ وفات پا گئیں اور وہ اپنے بیٹے کے سپنوں کو پورا ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکیں۔ ان کو منہ کا سرطان تھا۔
یہ فلم زبردست کامیاب رہی اور اسے بہترین پنجابی فیچر فلم کے لیے نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد ان پر بالی وڈ کے دروازے کھل گئے۔

پریم چوپڑا اور راج کپور آپس میں ہم زلف تھے۔ (فائل فوٹو: دی گریٹ بلیک اینڈ وائٹ سینما)

بھرت بھوشن کی فلم ’مُڑ مُڑ کے نہ دیکھ‘ ان کی پہلی بالی وڈ فلم تھی۔ ’شہید‘ کے سوا ان کی ابتدائی فلمیں، جن میں وہ مثبت کرداروں میں دکھائی دیے، زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پریم چوپڑا فلموں میں کام تو کر رہے تھے مگر انہوں نے اپنی ملازمت نہیں چھوڑی۔ فلم ’میں شادی کرنے چلا‘ کی شوٹنگ کے دوران کسی نے انہیں ولن کا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا جس پر انہوں نے سنجیدگی سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
پریم چوپڑا نے اس وقت ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ملازمت چھوڑی جب وہ ’نشان‘، ’سکندر اعظم‘ (1965)، ’سگائی‘ اور ’میرا سایہ‘ (1966) جیسی کامیاب فلموں میں کام کر چکے تھے۔ ’تیسری منزل‘ اور ’اُپکار‘ کے بعد وہ منفی کرداروں کے لیے فلم سازوں کی اولین پسند بن گئے۔
’تیسری منزل‘، ’اُپکار‘ اور ’بوبی‘ میں ان کی شاندار اداکاری نے شائقین کے دلوں میں ان کا خوف بٹھا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ فلم بین جب انہیں بڑے پردے پر دیکھتے تو سراسیمہ ہو جاتے۔
فلم ’بوبی‘ کا ذکر ہو تو راج کپور کا بھی لازمی طور پر ذکر ہوتا ہے جو اس فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار تھے مگر ان کا پریم چوپڑا سے ایک اور رشتہ بھی تھا جس کے بارے میں زیادہ لوگ آگاہ نہیں ہیں۔
پریم چوپڑا کی اہلیہ اوما چوپڑا راج کپور کی اہلیہ کرشنا کی بہن ہیں، یوں دونوں اداکار ہم زلف تھے۔ معروف ہدایت کار لیکھ ٹنڈن وہ شخصیت تھے جنہوں نے اوما کا رشتہ پریم چوپڑا کے لیے تجویز کیا۔ بعدازاں لیجنڈ اداکار راج کپور نے اپنی اہلیہ کرشنا راج کپور کی خواہش پر اپنی سالی کے رشتے کی بات پریم چوپڑا سے چھیڑی۔

پریم چوپڑا  نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ راجیش کھنہ کے ساتھ فلمیں ان کے لیے نہایت خاص ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

کرشنا کو پریم چوپڑا اپنی بہن اوما کے لیے بالکل موزوں لگے تو انہوں نے راج کپور سے کہا کہ وہ اس بارے میں پریم سے بات کریں۔ کرشنا اور راج کپور کی اس اعتماد بھری خواہش کو دیکھ کر پریم چوپڑا نے اوما سے ملاقاتیں شروع کیں، اور چند ملاقاتوں کے بعد وہ بھی اوما کو پسند کرنے لگے اور سنہ 1969 میں بالآخر دونوں نے شادی کر لی۔
’بوبی‘ کا ذکر ہوا تو اس فلم کا ناقابلِ فراموش ڈائیلاگ ’پریم نام ہے میرا، پریم چوپڑا‘ اداکار کی پہچان بن گیا۔
انہوں نے بالی وڈ کی معروف ویب سائٹ ’بالی وڈ ببل‘ سے بات کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ٹرین پر سفر کر رہے تھے تو ان کے مداح ہر ریلوے سٹیشن پر ٹرین رکواتے اور ان سے یہ مشہور ڈائیلاگ سنانے کی فرمائش کرتے۔
پریم چوپڑا نے ان دنوں کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگوں کو پتہ چل گیا تھا کہ میں اس ٹرین میں سوار ہوں۔ یہ ایک ایکسپریس ٹرین تھی، لیکن ہر سٹیشن پر اس قدر بھیڑ جمع ہو جاتی کہ ٹرین روکنا پڑتی۔ لوگ کہتے کہ جب تک میں یہ ڈائیلاگ نہیں بولوں گا، ٹرین آگے نہیں جا سکتی۔ اس طرح یہ سلسلہ سفر ختم ہونے تک جاری رہا۔‘
مداحوں کی یہ پرجوش فرمائش اور ہر سٹیشن پر براہِ راست پرفارمنس اس بات کا ثبوت تھی کہ پریم چوپڑا کی ولن جیسی کشش ناقابلِ شکست تھی۔
پریم چوپڑا نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ’جب انہیں فلم ’بوبی‘ میں ان کا یادگار کردار پیش کیا گیا تو راج کپور نے انہیں اندھیرے میں رکھا۔ انہوں نے پریم چوپڑا کو ان کے کردار کے بارے میں اس وقت تک آگاہ نہیں کیا جب تک وہ سیٹ پر نہیں پہنچ گئے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ پریم چوپڑا فلموں میں کام تو کر رہے تھے مگر انہوں نے اپنی ملازمت نہیں چھوڑی۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے بتایا کہ ’میرے بار بار پوچھنے پر بھی صرف یہی کہتے، ’بتائیں گے۔‘ اگر رات کو استفسار کرتا تو نشے میں ہوتے اور کہتے ’ارے یار بتائیں گے، تمہیں بول دیا نا بتائیں گے۔‘
جب پریم چوپڑا شوٹنگ کے لیے پُونا پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ فلم میں ان کی صرف ایک ہی لائن ہے، جس پر انہیں شک ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ کردار ادا کرنے سے پہلے مجھے کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں یش چوپڑا، بی آر چوپڑا اور شکتی سامنت کی فلموں میں کام کر رہا ہوں جہاں میرا کردار ہیرو جتنا اہم ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ لوگ مجھے صرف مہمان اداکار کے طور پر کاسٹ کرنا شروع کر دیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور ’بوبی‘ ان کی وہ فلم قرار پائی جس کا ڈائیلاگ ان کی پہچان بن گیا۔
اداکار حقیقی زندگی میں اگرچہ ایک مختلف شخصیت کے مالک ہیں مگر چوں کہ وہ طویل عرصہ تک منفی کرداروں میں دکھائی دیتے رہے تو اس لیے بہت سے ایسے دلچسپ واقعات پیش آئے جس سے ان کی مقبولیت اور فن میں یکتا ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔
انہوں نے فلم فیئر میگزین کو دیے گئے ایک پرانے انٹرویو میں ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ چندی گڑھ کے ایک باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ وہاں کچھ جوڑے بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر شوہر گھبرا گئے اور کہنے لگے، ’اپنی اپنی بیویوں کو چھپاؤ!
’میرے والد نے یہ سنا تو وہ خاصے پریشان ہوئے۔ انہوں نے کہا، ’تم مشہور تو ہو لیکن کیا یہی وہ شہرت ہے جس سے تم پہچانے جاتے ہو؟‘ والد کو مطمئن کرنے کے لیے میں ان مردوں کے پاس گیا اور ان سے بات چیت شروع کر دی۔ وہ حیران رہ گئے کہ میں بالکل عام سا اور ایک نارمل انسان ہوں۔‘

پریم چوپڑا بالی وڈ کے لیجنڈ اداکاروں میں منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹیلیگراف انڈیا)

ان کے ایک داماد معروف بالی وڈ اداکار شرمن جوشی ہیں جن کی شادی ان کی بیٹی پریرنا چوپڑا سے ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شرمن پریرنا کو ڈیٹ کرنے سے ڈرتے تھے کیوںکہ وہ مشہور اداکار پریم چوپڑا کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ازراہِ مزاح یہ کہا تھا کہ ’انہیں پریم چوپڑا کے ڈراؤنے خواب آتے تھے۔‘
پریم چوپڑا نے اداکار ارباز خان کے شو ’دی اِن وِنسِبلز‘ میں جب ان سے ان کی بیٹی ریتیکا چوپڑا (ریتیکا نندا) کے ردعمل کے بارے میں پوچھا کہ وہ ان کے فلمی کرداروں پر کیا کہتی تھیں تو پریم چوپڑا نے مسکراتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ سکول میں تھیں تو اکثر ان سے کہتی تھیں کہ اداکاری چھوڑ دیں اور آٹو رکشہ چلائیں۔
’یہ ریتیکا نندا کے الفاظ تھے جو ایک مصنفہ ہیں۔ وہ جب سکول میں تھیں تو کہتی تھیں، پاپا سب لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ فلموں میں بہت بُرے کردار ادا کرتے ہیں، آپ گندا کام کرتے ہو، آپ یہ چھوڑ دو۔‘
پریم چوپڑا یوں تو ہر بڑے اداکار کے ساتھ بطور ولن نظر آئے مگر ان کی وہ فلمیں یادگار رہیں جن میں راجیش کھنہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’ان کی راجیش کھنہ کے ساتھ فلمیں ان کے لیے نہایت خاص ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری راجیش کھنہ کے ساتھ فلمیں میرے لیے بہت اہم ہیں۔ ’ڈولی‘ سے لے کر ’گھر پریوار‘ تک ہم دونوں کی 17 میں سے 15 فلمیں سپر ہٹ رہیں۔ ہر فلم میں میرے منفی کردار کی ایک نئی جھلک نظر آئی۔‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ اتنے طویل عرصے تک کس طرح فلمی دنیا میں کامیاب رہے تو انہوں نے کہا کہ ’میں اگرچہ ہیرو بننا چاہتا تھا مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ میرے لیے اچھا ہی ہوا کیوںکہ ایک نئی دنیا میرے سامنے کھل گئی۔ اتنے کردار تھے جو میں کر سکتا تھا۔ جب میری ولن کے طور پر پہچان بن گئی تو پھر یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا۔‘

پریم چوپڑا کے ایک داماد اداکار شرمن جوشی ہیں جن کی شادی ان کی بیٹی پریرنا چوپڑا سے ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

پریم چوپڑا کی نمایاں فلموں میں ’بوبی‘ (1973)، ’دو راستے‘(1969) اور ’کٹی پتنگ (1970) شامل ہیں۔ اپنے 60 سال پر محیط طویل فنی کیریئر میں پریم چوپڑا نے 380 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ وہ یہ منفرد اعزاز بھی رکھتے ہیں کہ انہوں نے راجیش کھنہ کی 19 فلموں میں مرکزی ولن کا کردار ادا کیا۔ اداکار کو حال ہی میں رنبیر کپور کی فلم ’اینمل‘ میں دیکھا گیا ہے۔
پریم چوپڑا کو انڈین سینما میں ان کی خدمات پر کئی ایوارڈز اور اعزازات ملے، وہ بالی وڈ کے لیجنڈ اداکاروں میں منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
پریم چوپڑا اگرچہ زیادہ تر منفی کرداروں میں نظر آئے، لیکن اصل زندگی میں ان کی شخصیت بالکل اس کے برعکس ہے، شفقت، خوش اخلاقی اور پیشہ ورانہ وقار ان کی پہچان ہے۔ وہ ایک ایسے اداکار ہیں جنہوں نے منفی کرداروں میں کچھ یوں روح پھونکی کہ وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔

 

شیئر: