لاہور کی سیشن کورٹ نے آن لائن گیم ’پب جی‘ سے متاثر ہو کر اپنی والدہ، دو بہنوں اور بھائی کو قتل کرنے والے ملزم علی زین کو 100 سال قید اور 40 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ریاض احمد نے بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کی عمر کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسے چار بار عمر قید کی سزائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا پب جی گیم پاکستان میں قتل کی وجہ بن رہی ہے؟Node ID: 639576
پراسیکیوٹر حبیب الرحمان نے عدالت میں گواہان پیش کیے جن کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا گیا۔
قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ تین سال قبل 18 اور 19 جنوری 2022 کی درمیانی شب لاہور کے علاقے کاہنہ میں پیش آیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم علی زین آن لائن گیم پب جی کا شوقین تھا اور اسے کھیل کے دوران شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس شکست کا بدلہ لینے اور اپنی قتل کرنے کی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر والوں پر ہی پریکٹس کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد لاہور پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کو بتایا تھا کہ علی زین گیم کو غیرمعمولی سنجیدگی سے لیتا تھا۔
’جب وہ ہار جاتا تو خاموش ہو جاتا، کھانا پینا چھوڑ دیتا اور حقیقت سے زیادہ گیم کو اہمیت دیتا تھا۔‘
قتل کا واقعہ کیسے پیش آیا؟
ایس ایس پی عمران کشور کے مطابق واقعے کی رات علی زین رات ڈھائی بجے اُٹھا اور اپنی والدہ لیڈی ہیلتھ ورکر ناہید مبارک کا پستول نکالا اور تکیے کے اندر سے چاروں افراد پر فائرنگ کر دی۔
ایس ایس پی عمران کشور بتاتے ہیں کہ قتل کرنے کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔
’اس کو پتا تھا کہ پستول کی آواز آئے گی اور لوگ آجائیں گے۔ اس نے تکیے کے اندر سے پستول کا فائر کیا جس سے کافی حد تک آواز کم نکلی۔‘
پولیس تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ علی زین نے گیم میں شکست کے بعد اپنی دو بہنوں، 15 سالہ ماہ نور فاطمہ اور 10 سالہ جنت کو اسی طریقے سے قتل کیا تھا۔
پولیس حکام نے واقعہ سے متعلق تفصیلات میں بتایا تھا کہ ’علی زین نے ماں کو قتل کرنے کے بعد اپنی دو بہنوں کو بھی اسی طریقے سے قتل کیا اور اس کا بھائی جو کہ دوسرے کمرے میں تھا وہ آواز سن کر آیا تو اس نے اسے بھی اسی طریقے سے قتل کردیا۔‘
’پورے خاندان کو قتل کرنے کے بعد یہ گھر کے نیچے کی منزل جو کہ اس کی والدہ کا کلینک ہے وہاں جا کر سو گیا، اور صبح جب کام والی آئی تو اس نے 15 پر کال کی اور پولیس موقع پر پہنچی۔ پولیس نے ہی اس کو کلینک سے نکالا۔‘
پولیس نے اس مقدمے کی ایف آئی آر بھی علی زین کی مدعیت میں درج کی کیونکہ پولیس کے نزدیک یہ اس گھر کا واحد بچ جانے والا فرد تھا۔
پولیس کو علی زین پر شک کیسے ہوا؟
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے بتایا کہ ابتدا میں تو کسی بھی قسم کا شک اس پر نہیں تھا۔ ’پولیس تین پہلوؤں پر کام کررہی تھی۔ ایک یہ تھا کہ شاید پراپرٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو کیونکہ یہ گھر اور کلینک ناہید مبارک کا ہی تھا جو علی زین کی والدہ تھیں۔ دوسرا پہلو ذاتی دشمنی اور تیسرا غیرت کے نام پر قتل کا ہوسکتا تھا کیونکہ خاتون کا شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس اور فرانزک ٹیموں نے جتنے بھی شواہد اکھٹے کیے ان میں قاتل کا باہر سے آنا کسی بھی صورت ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ حتی کہ دروازے پر فنگر پرنٹس کے نشان یا گھر میں باہر سے داخل ہونے کے جوتوں کے نشانات تک نہیں تھے۔ تو پھر بالآخر اسی بچے سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا گیا۔‘
جب پولیس نے سنجیدگی کے ساتھ علی زین سے سوال جواب کیے تو ان کے اپنے ہی بیانات میں کئی طرح کے تضادات نے پولیس کو چوکنا کردیا۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور کے مطابق ’ان تضادات کے بعد اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اصل بات نہ بتائے۔ اس کے بعد اس نے پستول کے بارے میں بتایا جہاں اس کی انگلیوں کے نشانات موجود تھے تو اس طرح یہ بھیانک قتل کی واردات کا اصل سرا ہاتھ آیا۔
پولیس حکام کے مطابق علی زین کی والدہ ڈاکٹر ناہید مبارک اسے پب جی کھیلنے سے منع کرتی تھیں جس پر وہ ان سے بدظن رہتا تھا اور یہی غصہ اس کے جرم کا محرک بنا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ علی زین گھنٹوں گیم کھیلتا اور اہداف حاصل نہ کرنے پر غضبناک ہو جاتا تھا۔ واقعے کے دن بھی وہ گیم میں ناکامی کے بعد اپنا ہوش کھو بیٹھا تھا۔
اہل محلہ کے مطابق ڈاکٹر ناہید مبارک اپنے خاندان کے ساتھ گذشتہ 25 برس سے کاہنہ کے ایل ڈی اے چوک میں رہائش پذیر تھیں۔ ان کا گھر کئی منزلوں پر مشتمل تھا اور وہ اپنے کلینک میں بھی کام کرتی تھیں۔ ان کے شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے، جس کی وجہ سے پولیس نے ابتدائی طور پر غیرت کے نام پر قتل کے زاویے پر بھی غور کیا تھا۔