Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافتی تنظیموں کی پریس کلب پر ’پولیس دھاوے‘ کی مذمت، وزیر داخلہ کا تحقیقات کا حکم

پاکستان کی صحافتی تنظیموں اور مختلف پریس کلبوں نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے نیشنل پریس کلب میں داخل ہو کر صحافیوں پر تشدد اور توڑ پھوڑ کی شدید مذمت کی ہے۔
جمعرات کی سہ پہر نیشنل پریس کلب کے باہر کشمیر کمیونٹی سمیت مختلف گروہوں کی جانب سے احتجاج جاری تھا، جسے منتشر کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا۔ اسی دوران پولیس اہلکار نیشنل پریس کلب کے اندر گھس آئے، جہاں صحافیوں اور مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کو نیشنل پریس کلب نے اپنی تاریخ کا ’سیاہ ترین باب‘ قرار دیا ہے۔
اس واقعے کے خلاف صحافیوں نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کیا اور واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں کے رہنماؤں سمیت صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جمعرات کی شام کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈا) نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے کو ’دہشت گردی‘ قرار دیا اور حکومت سے واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
تنظیموں نے کہا کہ یہ واقعہ صحافیوں کے خلاف جاری دباؤ، سنسرشپ اور دھمکیوں کے تسلسل کا حصہ ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا:
’گزشتہ چند دنوں سے حکومت پاکستان کی جانب سے ’کبھی سوچا ہے کہ اب جنگ کی صورت کیا ہے؟‘ کے عنوان سے قومی و علاقائی میڈیا میں اشتہارات شائع کیے جا رہے ہیں، جن میں دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے رپورٹرز، فری لانسرز اور سماجی تنظیموں کو ریاست مخالف عناصر کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
بیان میں اسے صحافیوں کی کردار کشی، انہیں دباؤ میں لانے اور آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا گیا۔
تنظیموں نے کہا کہ ’اس میڈیا نے جو جنگ کے دوران قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کیا، اسی میڈیا سے منسلک رپورٹرز اور فری لانسرز کو دہشت گردوں سے تشبیہ دینا آزادی صحافت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘

کراچی پریس کلب کی بھی شدید مذمت

کراچی پریس کلب نے بھی الگ بیان میں اسلام آباد پریس کلب پر پولیس کے حملے اور صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔
صدر اور جنرل سیکریٹری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’یہ واقعہ نہ صرف آزادی صحافت پر حملہ ہے بلکہ جمہوری اقدار کو روندنے کے مترادف ہے۔‘

سیاسی اور حکومتی ردِعمل

مختلف سیاسی جماعتوں، وزرا اور سماجی تنظیموں نے بھی واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نیشنل پریس کلب میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق وزیر داخلہ نے صحافیوں پر تشدد کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’صحافی برادری پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ واقعے میں ملوث اہلکاروں کی شناخت کر کے ان کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل پریس کلب کے افسوسناک واقعے پر میں اپنے تمام صحافی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان شاء اللہ، ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا۔‘

شیئر: