حالیہ دنوں اس حوالے سے خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ ہزاروں پاکستانیوں کا ذاتی ڈیٹا آن لائن ویب سائٹس پر فروخت کے لیے دستیاب ہے۔ اس ڈیٹا لیک سے نہ صرف عام شہری بلکہ اہم سرکاری افسر اور ملازمین بھی متاثر ہوئے تھے۔
وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ایسے پلیٹ فارمز کی نشاندہی کرے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔
این سی سی آئی اے نے ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی تفتیش میں 139 ایسے پلیٹ فارمز کی نشاندہی کی جو شہریوں کا ڈیٹا فروخت کرنے میں ملوث تھے۔ ان میں ویب سائٹس، موبائل ایپلیکیشنز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
تفتیش کے مطابق مجموعی طور پر 75 فیس بک اکاؤنٹس، 18 موبائل ایپس، 17 ویب سائٹس، 12 ٹیلی گرام چینلز، 10 ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور دو یوٹیوب چینلز ایسے ہیں جن پر شہریوں کا ذاتی ڈیٹا موجود تھا اور اس کی خرید و فروخت کی جا رہی تھی۔ علاوہ ازیں ایک واٹس ایپ گروپ بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
این سی سی آئی اے کی ٹیم اب اگلے مرحلے میں ان پلیٹ فارمز کو چلانے والوں اور اس دھندے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں کے لیے کارروائی کرے گی۔ اس دوران 139 پلیٹ فارمز کی تفصیلات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو بھیجی گئیں جس نے ان میں سے بیشتر کو بلاک کر دیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلاک کیے گئے آن لائن پلیٹ فارمز سے شہریوں کا ذاتی ڈیٹا ختم بھی ہو سکے گا یا نہیں؟
این سی سی آئی اے نے یہ اکاؤنٹس کیسے پکڑے؟
اردو نیوز کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی خصوصی ٹیم نے وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔
اس دوران ان اکاؤنٹس اور پیجز کو چیک کیا گیا جو شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کی فراہمی یا تشہیر میں ملوث تھے۔ اسی عمل کے بعد 139 پلیٹ فارمز کی نشاندہی ممکن ہوئی۔

ان پلیٹ فارمز کی نشاندہی سے متعلق سائبر سکیورٹی کے ماہر ہارون بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسی ایپس یا اکاؤنٹس کی نشاندہی کے لیے اداروں کو مسلسل نگرانی اور ہر پلیٹ فارم کا تفصیلی جائزہ لینا پڑتا ہے۔‘
اُنہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کی کمپنیوں سے براہِ راست رابطہ کر کے پیج ایڈمنز اور دیگر متعلقہ افراد کی معلومات حاصل کی جائیں، تاہم یہ بات سرِدست واضح نہیں کہ یہ عالمی کمپنیاں پاکستانی حکومت کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتی ہیں۔‘
ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ڈیٹا لیک کے اکثر واقعات میں خود متعلقہ ادارے سے منسلک افراد بھی ملوث ہوتے ہیں، جیسے کہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں یا ڈیٹا بیس اداروں کے اہلکار بھی شامل ہو سکتے ہیں جو شہریوں کا ڈیٹا فروخت کر کے مالی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
شہریوں کا کون سا ڈیٹا لیک ہوا تھا؟
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آن لائن دستیاب پاکستانی شہریوں، وزرا اور سرکاری افسروں کے ذاتی ڈیٹا میں نہ صرف قومی شناختی کارڈ نمبر، مکمل نام، والد کا نام، تاریخِ پیدائش، موبائل نمبر، رجسٹرڈ پتہ اور ای میل ایڈریس شامل ہیں بلکہ اس کے ساتھ حساس معلومات بھی موجود تھیں۔
ان میں ٹیلی کام ریکارڈز جیسے کال ہسٹری، ایس ایم ایس لاگز اور سم رجسٹریشن کی تفصیلات بھی شامل تھیں جبکہ بعض ویب سائٹس پر شہریوں کے موبائل فون کی لوکیشن ہسٹری تک دستیاب تھی جو سکیورٹی اور پرائیویسی دونوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں بعض ویب سائٹس پر شہریوں کی سفری تفصیلات، بیرونِ ملک سفر کی ہسٹری، روانگی اور آمد کا ریکارڈ، سرکاری عہدے اور سرکاری ای میلز بھی شامل ہیں، جو مختلف قیمتوں پر آن لائن فروخت کی جا رہی تھیں۔

کیا بلاک کی گئی ویب سائٹس تک رسائی اب ممکن نہیں رہی؟
اس سوال کے جواب میں اسلام آباد میں مقیم سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمٰن، جنہیں سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگرچہ پی ٹی اے کی جانب سے ایسے پلیٹ فارمز کو بلاک کر دینا ایک مثبت قدم ہے، لیکن عام شہری کے لیے ان پلیٹ فارمز تک رسائی ممکن نہیں ہو گی، البتہ آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے افراد دوسرے ذرائع مثلاً وی پی این کے ذریعے بآسانی ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ایسے دھندے میں ملوث افراد کا کوئی ایک پلیٹ فارم بلاک کیا جاتا ہے تو وہ فوراً دوسرا پلیٹ فارم بنا لیتے ہیں اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے خاص طور پر اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ’ٹیلی گرام پر اس نوعیت کے اکاؤنٹس کو روکنا نہایت مشکل ہے، اور وہاں اس کاروبار کے جاری رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘
محمد اسد الرحمٰن نے ایک اور اہم سوال کہ کیا ایسے پلیٹ فارمز سے شہریوں کا ڈیٹا ریموو کر دیا جائے گا، کے جواب میں بتایا کہ ’یہ پلیٹ فارمز اگرچہ بلاک کر دیے جائیں گے، لیکن جب تک اس دھندے میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، شہریوں کا ڈیٹا آن لائن مختلف ذرائع پر دستیاب رہے گا۔‘













