Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کا امن منصوبہ اور دو ریاستی حل

’امریکی صدر نے مختلف قوتوں کی مخالفت کو نہ صرف خاموش کر دیا بلکہ انہیں قائل بھی کیا‘ ( فوٹو: العربیہ)
  • ہمیں دوبارہ سعودی عرب کے ’دو ریاستی حل‘ کے منصوبے اور ٹرمپ جیسے مؤثر رہنما کے کردار کی طرف لے جاتا ہے۔
  • آخر کار حماس کے سخت گیر عناصر کو بھی رضامندی پر مجبور ہونا پڑا
  • حماس جو گزشتہ تیس برسوں سے مسلح جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی، ختم ہو جائے گی
 
میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں حماس کے ٹرمپ کی منصوبہ بندی قبول کرنے کے رجحان پر بات کی تھی۔
کل شب دنیا اس خبر پر جاگی کہ حماس اور اسرائیل دونوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔
اس نتیجے تک پہنچنا آسان نہ تھا، بالخصوص اس صورتِ حال میں جب خطے اور غزہ کی عسکری پیچیدگیاں بہت گہری ہیں۔
امریکی صدر نے مختلف قوتوں کی مخالفت کو نہ صرف خاموش کر دیا بلکہ انہیں قائل بھی کیا۔
اسرائیل پہلے ہی اس بات کا اظہار کر چکا تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی نہیں چاہتا اور نہ ہی حماس کے جنگجوؤں کو باقی رہنے کا حق دینے پر راضی ہے بلکہ وہ اس خطے پر دوبارہ تنہا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
ٹرمپ نے حماس کے قریب سمجھے جانے والے ممالک جیسے قطر اور ترکی کو بھی اپنی طرف مائل کیا۔
قطر کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے، ترک صدر کی میزبانی کی، ترکی کو روسی گیس خریدنے کے لیے مزید مہلت دی اور ایف 35 جنگی طیاروں کی ڈیل کے دروازے کھولے، جن پر سابقہ امریکی حکومتوں نے پابندی لگا رکھی تھی۔
روس کو بھی غیر جانب دار کیا، جو اس معاہدے کے خلاف بلاک کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ٹرمپ نے سعودی عرب جیسے مرکزی ملک کو بھی اہمیت دی اور اس کے دو ریاستی حل کے منصوبے کو اپنی غزہ پالیسی کا مرکزی ہدف قرار دیا۔
ساتھ ہی اس نے حماس کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ راضی ہوئی تو اس کی قیادت اور جنگجو محفوظ رہیں گے، چاہے وہ غزہ میں رہیں یا باہر نکل جائیں۔
انقرہ، دوحہ اور ماسکو نے اپنے دروازے حماس کے رہنماؤں پر بند رکھے جب تک وہ ٹرمپ کے منصوبے کو تسلیم نہ کر لیں۔
صدر پیوٹن نے واشنگٹن کے ساتھ اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ذاتی طور پر نہ کہ وزیر خارجہ کے ذریعے، ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ٹونی بلیئر کے اس منصوبے کی بھی تائید کی جس کے تحت اگلے مرحلے میں غزہ کا نظم و نسق سنبھالا جانا ہے۔
حالانکہ مغربی بلاک کو جنگوں میں الجھائے رکھنا روس کے لیے یوکرین کی جنگ میں فائدہ مند ہے۔
اس بار تہران کی مخالفت بھی معمول سے کمزور رہی۔ پچھلے سال حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد فلسطینی تحریک کے قائدین ایران جانے سے خائف ہو گئے۔
آخر کار حماس کے سخت گیر عناصر کو بھی رضامندی پر مجبور ہونا پڑا، اگرچہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بعد میں اعتراضات، ترامیم اور تاخیر کی حکمت عملی اختیار کریں گے تاکہ کچھ وقار بچایا جا سکے۔
نتیجتاً، ٹرمپ کی منصوبہ بندی کے مطابق، وہ حماس جو گزشتہ تیس برسوں سے مسلح جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی، ختم ہو جائے گی اور شاید ایک سیاسی جماعت کی صورت باقی رہے جو فلسطینی اتھارٹی پر قابض ’فتح‘ کے ساتھ مقابلہ کرے۔
دو سالہ جنگ کے دوران حماس نے ہاں اور نہ کی جھولتی سیاست اختیار کیے رکھی۔
وہ معاہدہ بھی چاہتی تھی اور جنگ ختم بھی لیکن غزہ چھوڑنے پر راضی نہ تھی۔ آخر ٹرمپ نے دونوں کو (حماس اور اسرائیل‘ جو جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے، روک دیا۔
حماس اس عمل میں سب سے آخر میں شامل ہوئی۔ حزب اللہ پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر چکا تھا۔ دیگر فلسطینی جماعتوں نے لبنان میں اپنے ہتھیار ڈال دیے اور شام میں اسد حکومت کے زوال کے بعد فلسطینی و قوم پرست ملیشیائیں ختم ہو گئیں۔
یوں حماس اس ’’محورِ مزاحمت‘‘ کی آخری اینٹ تھی، جو اب گر رہی ہے اور مسلح تحریک میں بڑا خلا پیدا کر رہی ہے۔
اگر اس خلا کو سیاسی طور پر پُر نہ کیا گیا تو یہ مختلف ناموں اور صورتوں میں دوبارہ جنم لے سکتا ہے۔
یہ ہمیں دوبارہ سعودی عرب کے ’دو ریاستی حل‘ کے منصوبے اور ٹرمپ جیسے مؤثر رہنما کے کردار کی طرف لے جاتا ہے۔
تاہم فی الحال سب سے بڑی ترجیح دو ملین بے گھر اور محروم انسانوں کی انسانی المیہ صورتِ حال کا حل ہے، جنہیں فوری بچاؤ اور عارضی امداد کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی وہ منصوبۂ انتظام و ترقی شروع ہو سکے گا جس میں مہینے لگ سکتے ہیں۔

بشکریہ : الشرق الاوسط

شیئر: