نیپال میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جریشن زی سے تعلق رکھنے والے لڑکے لڑکیاں پہلی بار بڑے جوش سے اپنے ووٹ کا اندراج کرا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ووٹ کا اندراج کرانے والوں میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے اور وہ آنے والے انتخابات کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو ملک کے مستقبل کو ایک نئی شکل دے گا کیونکہ تین کروڑ کی آبادی رکھنے والا ملک شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے۔
آٹھ اور نو ستمبر کو ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران 73 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ مشتعل مظاہرین نے پارلیمان، عدالتوں اور حکومتی عمارتوں کو جلا دیا تھا۔
مزید پڑھیں
ملک میں احتجاج ابتدائی طور پر سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف شروع ہوا تھا جو پھیلتا گیا اور طویل عرصے سے معاشی اور بدعنوانی سے متعلق مشکلات سے پریشان لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔
حکومت ختم ہونے کے چند روز بعد ہی 73 سالہ سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیا جو پانچ مارچ 2026 کو ہونے والے انتخابات تک فرائض سرانجام دیں گی۔
کھٹمنڈو میں ووٹ کے اندراج کے لیے پہنچنے والے 21 سالہ طالب علم نیرنجن بھنڈاری کا کہنا تھا کہ ’یہ نئی حکومت طلبہ کی لاشوں پر تعمیر ہوئی ہے۔ اسی لیے آنے والے الیکشن میں ہم ان پرانے چہروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں جو طویل عرصے سے اقتدار کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی وجہ سے ہی آج میں اپنے نئے ووٹر شناختی کارڈ کے اندراج کے لیے یہاں آیا ہوں۔‘
اس وقت نیپال کا سیاسی مستقبل غیریقینی کی صورت حال میں ہے، آنے والے انتخابات کو پرامن طور پر منعقد کرانے سمیت کئی دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں جبکہ سیاسی پارٹیوں کے بارے میں نیپالی عوام میں عدم اعتماد بھی پایا جاتا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ احتجاج میں شریک ہونے والے طلبہ اپنی کوئی پارٹی بنانے کی کوشش کریں گے یا نہیں یا پھر پرانے سیاست دان ہی واپس آنے کی کوشش کریں گے۔
حکومت نے 73 سالہ کے پی شرما اولی پر سفری پابندی عائد کر رکھی ہے جو جبری طور پر نکالے جانے سے قبل چار بار وزارت عظمیٰ پر فائز رہ چکے ہیں کیونکہ ملک میں بدامنی کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا کمیشن مختلف واقعات کی تحقیقات کر رہا ہے۔

تاہم رواں ماہ کے آغاز میں انہوں نے اپنے حامیوں سے ایک خطاب میں واضح طور پر ’غیرآئینی طور پر تحلیل کی گئی پارلیمان‘ کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔
پچھلے مہینے میں ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی شورش نے پہلے سے ہی کمزور معیشت کو مزید نقصان پہنچایا، جہاں ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق 82 فیصد افرادی قوت غیر رسمی ملازمتوں سے جڑی ہے اور 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق نیپال کی فی کس آمدنی ایک ہزار 447 ڈالر ہے۔
20 سالہ طالبہ سمبریدھی گوتم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں بہت پرجوش ہوں اور یہ پہلی بار ہو گا کہ میں الیکشن میں حصہ لوں گی۔‘
پڑوسی ملک انڈیا میں چارٹر اکاؤنٹنٹ کی تعلیم حاصل کرنے والی سمبریدھی گوتم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسی لیے وطن واپس آئی ہیں کہ ووٹ کا اندراج کرا کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کو یقینی بنا سکیں۔