Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ امن معاہدہ، یہ زخم پھر سے ہرا ہوگا؟ عرب صحافی کا تجزیہ

’عرب اس امن کے شراکت دار ہیں، وہی اس خطے کے اصل مکین ہیں‘ ( فوٹو: العربیہ)
  • جنگ کے اختتام کا اعلان بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ مسلسل جاری تنازعات کے مستقل علاج کے مترادف نہیں۔
  • یہ جنگیں وقتی طور پر تھم جاتی ہیں مگر پھر کسی نہ کسی شکل میں لوٹ آتی ہیں۔
  • حقیقی علاج صرف اس وقت ممکن ہے جب فلسطین اور اسرائیل ایک دوسرے کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں
 
کل پیر کا دن ہماری سرزمینوں میں، جنہیں مغرب مشرقِ وسطیٰ کہتا ہے، جنگ اور امن کی تاریخ میں ایک بڑا دن ثابت ہوا۔
یہ دن اسرائیل کے شہر تل ابیب میں واقع پارلیمنٹ سے لے کر مصر کے شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس تک گونجتا رہا۔
اس دن کے مرکزی کردار امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی سرگرمیاں ایک ایسی تقریر سے شروع کی جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی اور وہ بھی اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایوان میں جیسا کہ کبھی مصر کے سابق صدر انور السادات نے وہاں خطاب کیا تھا۔
اپنی تقریر میں جو اسرائیلی عوامی نمائندوں اور ملکی قائدین کی موجودگی میں کی گئی، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ان کی کوششوں سے ہونے والا فائر بندی معاہدہ ’نئے مشرقِ وسطیٰ کے تاریخی سحر کی نوید‘ ہے۔
اپنے مخصوص اندازِ بیان میں انہوں نے کہا ’آج بندوقیں خاموش ہو گئی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل روشن ہو جائے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کسی جنگ کا اختتام نہیں بلکہ نئے مشرقِ وسطیٰ کے تاریخی طلوعِ فجر کا دن ہے‘۔
یہ خطاب امریکی صدور کی جانب سے اسرائیلی کنیست میں کی جانے والی چوتھی تقریر تھی۔
اس میں ٹرمپ نے خاص طور پر عرب اور اسلامی ممالک کے کردار کی تعریف کی، خصوصاً حماس پر دباؤ ڈالنے کے ضمن میں تاکہ وہ اس نئے راستے پر آگے بڑھے۔
اس ضمن میں انہوں نے ترکی، قطر اور مصر کا ذکر کیا جو حماس پر اثر رکھنے والے ممالک ہیں۔
تاہم غزہ میں اس تباہ کن جنگ کے خاتمے سے بھی زیادہ دیرپا اور اہم مرحلہ ایک نئے سیاسی نظم کی تشکیل ہے، یعنی فلسطینی ریاست کا قیام جو 1967 کی سرحدوں کے اندر فلسطینی عوام کے پائیدار وجود کی ضمانت بن سکے۔
یہ گہرا اور تاریخی عمل سعودی عرب اور فرانس کی قیادت میں جاری ہے جس کے نتیجے میں دنیا کے کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور باقی ممالک بھی اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ عرب اس امن کے شراکت دار ہیں، وہی اس خطے کے اصل مکین ہیں۔
انہوں نے خطاب سے چند گھنٹے قبل کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ’کوئی بھی انہیں مایوس نہیں کرے گا‘۔
یہاں تک کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو، جنہیں ٹرمپ نے سیاسی حمایت دی، نے بھی ٹرمپ کے منصوبے پر عمل کیا، اگرچہ دونوں کے درمیان بعض ’اختلافات‘ تھے جنہیں ٹرمپ نے تسلیم بھی کیا۔
جہاں تک ٹرمپ کے اس مشہور خیال کا تعلق ہے جو انہوں نے کبھی ’غزہ ریویرا‘ Gaza Riviera کے نام سے پیش کیا تھا تو انہوں نے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں‘۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ موجودہ جنگ کے اختتام کا اعلان ہے اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ مسلسل جاری تنازعات کے مستقل علاج کے مترادف نہیں۔
یہ جنگیں وقتی طور پر تھم جاتی ہیں مگر پھر کسی نہ کسی شکل میں لوٹ آتی ہیں۔
اس مرض کا حقیقی علاج صرف اس وقت ممکن ہے جب فلسطین اور اسرائیل ایک دوسرے کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں، ایک حقیقی اور بین الاقوامی اصولوں پر مبنی اعتراف کے ساتھ، اس کے بغیر، ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ زخم کبھی نہ کبھی پھر سے ہرا ہو جائے گا۔
(بشکریہ : الشرق الاوسط)

شیئر: