بلوچستان کے ضلع زیارت سے دو ماہ قبل اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر زیارت محمد افضل باقی کے جوان بیٹے مستنصر بلال بازیاب ہو گئے ہیں تاہم اسسٹنٹ کمشنر تاحال لاپتہ ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مستنصر بلال کی بازیابی کی تصدیق کی ہے۔
ان کے مطابق جمعرات کی شب اغواکاروں نے مستنصر بلال کو کوئٹہ سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور ضلع ہرنائی کے علاقے زرد آلو میں ایک ویران پہاڑی مقام پر چھوڑا تھا جہاں سے وہ پیدل چل کر فرنٹیئر کور (ایف سی) کی ایک چوکی تک پہنچے۔
مزید پڑھیں
افسر کے مطابق اطلاع ملتے ہی ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کے افسران موقع پر پہنچ گئے اور بازیاب ہونے والے نوجوان کو تحویل میں لے لیا۔ ان کی صحت بہتر بتائی جا رہی ہے۔
محمد افضل باقی اور ان کے بیٹے کو رواں سال 10 اگست کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیارت سے تقریباً 20 کلومیٹر دور پہاڑی علاقے زیزری میں پکنک منا رہے تھے۔
مسلح افراد نے حملہ کر کے انہیں ڈرائیور اور محافظوں سمیت یرغمال بنایا تاہم کچھ دیر بعد ڈرائیور اور محافظوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ باپ بیٹے کو پہاڑوں کی طرف لے جایا گیا۔ اغواکاروں نے سرکاری گاڑی کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔
افسر کے مطابق بازیاب ہونے والے مستنصر بلال کے پاس بھی اپنے والد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر کے بھائی عبدالمجید نے بھی اپنے بھتیجے کی بازیابی کی تصدیق کی اور بتایا کہ ہماری فون پر بات ہوئی تو بھتیجے نے سب سے پہلے اپنے والد کے بارے میں پوچھا۔

ان کے مطابق محمد افضل کے حوالے سے اب تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
یاد رہے کہ 21 ستمبر کو سوشل میڈیا پر ایک لاش کی تصویر سامنے آئی تھی جسے محمد افضل باقی سے منسوب کیا گیا جس کے بعد ہرنائی اور زیارت کے علاقوں میں تلاش کے لیے آپریشن کیا گیا۔ تاہم بعد میں وہ لاش کسی اور شخص کی نکلی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی ابتدائی طور پر محمد افضل باقی کے قتل کی تصدیق کی تھی مگر بعد میں خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر درست نہیں تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے عوام سے معذرت بھی کی تھی۔
اغوا کے اس واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ تاہم واقعے کے چند ہفتوں بعد اغواکاروں نے باپ بیٹے کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ نامعلوم مقام پر نظر آئے۔
سکیورٹی فورسز نے زیارت اور ہرنائی کے پہاڑی علاقوں میں مغویوں کی بازیابی کے لیے کئی کارروائیاں کیں مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ حکومت بلوچستان نے مغویوں اور اغواکاروں کا سراغ دینے والوں کے لیے پانچ کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔
محمد افضل باقی کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے تونسہ سے بتایا جاتا ہے۔ وہ محکمہ مال میں تعینات ہونے کے بعد ترقی کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ زیارت اور ہرنائی سمیت مختلف اضلاع میں قانون گو، نائب تحصیلدار اور تحصیلدار کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر دورانِ قید ہی پوری ہو چکی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان میں انتظامی افسران کے اغوا اور حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال جون میں بھی ضلع کیچ کے اسسٹنٹ کمشنر تمپ محمد حنیف نورزئی کو اغوا کیا گیا تھا جنہیں ساڑھے تین ماہ بعد رہا کیا گیا۔