Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سموگ کے خلاف ’جنگ‘، پانی کی توپوں سے دفاع ہو سکے گا؟

پچھلے نو برسوں سے حکومتی مشنری اس قدرتی آفت کو سمجھنے اور نمٹنے میں لگی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ بات ہے نومبر 2016 کی جب اچانک لاہور میں دھند آ گئی۔ یہ ایسی دھند تھی جس میں ٹھنڈک نہیں تھی۔ اور یہ اتنے دبے پاؤں آئی تھی کہ حکومتِ وقت کو بھی اس کی کانوں کان خبر نہیں تھی۔
لیکن چند ہی دنوں میں جب بڑی تعداد میں لوگ اس سے متاثر ہونے لگے تو پھر پورے میڈیا پر لوگوں نے پہلی دفعہ سنا کہ یہ سموگ ہے اور یہ آلودگی کی وجہ سے ہے۔ تب سے لے کر آج تک ہر سال اکتوبر سے دسمبر تک لاہور سمیت وسطی پنجاب میں ایک نئے سیزن کا ظہور ہو چکا ہے۔ جسے اب سموگ سیزن کہا جاتا ہے۔
پچھلے نو برسوں سے حکومتی مشنری اس قدرتی آفت کو سمجھنے اور نمٹنے میں لگی ہے، البتہ گذشتہ چند سالوں سے سرکاری سطح پر عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ لاہور میں سموگ کی بڑی ذمہ داری انڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ 
پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کے محکمے (ای پی ڈی) اور صوبائی حکومت کے باقاعدہ بیانات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مشرقی ہوائیں انڈیا کے صوبہ پنجاب اور دہلی سے اڑنے والا دھواں لاہور اور وسطی پنجاب تک پہنچا دیتی ہیں، جس سے آلودگی کی سطح میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں تو یہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی جب انڈیا میں دیوالی کی تقریبات کے پٹاخوں اور فصل جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں نے سرحد پار کرتے ہوئے لاہور کی ہوا کو مزید زہریلا بنا دیا۔ حفظان ماحولیات ایجنسی کے مطابق پچھلے دو سے تین دنوں میں لاہور کی آلودگی کی سطح دو سو سے تجاوز کر گئی، جبکہ اس سے قبل چند ہفتوں تک یہ سطح دو سو سے نیچے رہی تھی۔

ساجد بشیر نے کہا کہ ’جب انڈیا سے آنے والی ہوا اس بوجھ کو ناقابل برداشت کر دیتی ہے تو ہمارے لیے اور مشکل ہو جاتی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سموگ کا پس منظر: مقامی وجوہات سے سرحد پار تنازع تک
جب سال 2016 میں پہلی دفعہ سموگ حملہ آور ہوئی تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف تھے۔ سموگ پر تحقیقات کا آغاز ہوا تو  فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں باقی ماندہ تنوں کو جلانا، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، صنعتی دھوئیں اور تعمیراتی کاموں سے اٹھنے والی گرد اس کی بنیادی وجوہات قرار پائیں۔
ای پی ڈی کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ صوبے میں آلودگی کی سطح سالانہ طور پر اکتوبر میں عروج پر پہنچ جاتی ہے، جب ہوائیں سست ہو جاتی ہیں اور دھواں نیچے کی تہوں میں پھنس جاتا ہے۔ تاہم 2020 سے لے کر اب تک حکام بار بار انڈیا کو بھی اس کی ذمہ داری کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2024 کی سموگ کی سب سے بڑی لہر کے دوران ای پی ڈی نے اعلان کیا کہ مشرقی ہوائیں انڈیا کے صوبہ پنجاب سے اڑنے والے دھوئیں کو لاہور لے آئیں، جس سے شہر کی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
صوبائی حکومت کے ماحولیاتی تحفظ کے وزیر نے اسے ’سرحدوں سے بالاتر انسانی مسئلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے پنجاب کو مل کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
ای پی اے کے ترجمان ساجد بشیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم اس لیے انڈیا کا نام لیتے ہیں کیونکہ اکتوبر سے دسمبر تک مشرق سے ہوا کا ایک کوریڈور بنتا ہے جس میں ہوا کی رفتار تو پانچ سے چھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ مسلسل مشرق سے مغرب کی طرف چلتی ہے۔‘

مریم نواز نے کہا تھا کہ لاہور میں سموگ کی شدت کا ایک بڑا حصہ سرحد پار سے آتا ہے (فوٹو: اے پی پی)

’اکتوبر میں دیوالی ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی چاول کی فصل کاٹنے کا موسم ہوتا ہے جس کی باقیات جلائی جاتی ہیں۔ انڈیا کا پنجاب تین حصوں میں ہے اور ہمارے پنجاب سے کئی گنا بڑا ہے۔ اسی تناسب سے آلودگی بھی ہے۔‘
ساجد بشیر مزید بتاتے ہیں کہ ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سموگ آتی ہی انڈیا سے ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات پچھلے کئی سالوں سے کر رہے ہیں، لیکن جب انڈیا سے آنے والی ہوا اس بوجھ کو ناقابل برداشت کر دیتی ہے تو ہمارے لیے اور مشکل ہو جاتی ہے۔‘
’گذشتہ سال وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ انڈین پنجاب کی انتظامیہ کے ساتھ بات کر کے اکھٹے مسئلے کا حل نکالیں گے، لیکن اب بیچ میں ایک جنگ آ گئی ہے اس لیے میرے خیال میں اس پر بات بھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ بلیم گیم نہیں ہے۔ مسئلے کی نوعیت ہی ایسی ہے۔‘
جب پاکستانی اور انڈین پنجاب کے وزرائے اعلی آمنے سامنے آئے
گذشتہ سال یعنی 2024 میں صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس مسئلے پر براہ راست بات کی اور سموگ کو سیاسی نہیں بلکہ انسانی بحران قرار دیا۔ اکتوبر میں انہوں نے اعلان کیا کہ ’ہم انڈیا کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھیں گے تاکہ دونوں صوبوں کے درمیان کلائمیٹ ڈپلومیسی شروع ہو اور سموگ کے خلاف مشترکہ جنگ لڑی جائے۔‘

اس سموگ کی لڑائی میں حال ہی میں پاکستانی پنجاب کی حکومت نے پانی کی توپیں خریدی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں سموگ کی شدت کا ایک بڑا حصہ سرحد پار سے آتا ہے، خاص طور پر فصل جلانے اور پٹاخوں سے، اور اسے روکنے کے لیے دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستانی میڈیا میں سرخیاں بنا بلکہ انڈین حلقوں میں بھی بحث کا موضوع بن گیا۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ ’دونوں پنجاب مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں، کیونکہ یہ صحت اور ماحول کا مشترکہ چیلنج ہے۔‘
اس بیان کا جواب انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھاگوانت مان نے نومبر 2024 میں دیا جو مزاحیہ مگر طنزیہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز صاحبہ خط ضرور لکھیں، کیونکہ دہلی والے کہتے ہیں کہ ادھر سے دھواں آتا ہے، اور لاہور والے کہتے ہیں کہ ادھر سے آتا ہے۔ لگتا ہے ہماری آلودگی کا ایک دائرہ بن رہا ہے جو گھوم پھر رہا ہے۔‘
مان نے یہ بھی کہا کہ الزام تراشی کے بجائے تعاون پر توجہ دی جائے اور مذاق میں یہ بھی پوچھا کہ ’کیا ہماری آلودگی اتنی طاقتور ہے کہ دونوں شہروں میں گھومتی رہے؟‘ یہ جواب دونوں ملکوں کے میڈیا میں وائرل ہو گیا اور سموگ کو ایک سیاسی تنازع کی شکل دے دیا حالانکہ دونوں رہنماؤں کا بنیادی پیغام تعاون کا ہی تھا۔
پانی کی توپوں سے ’دفاع‘ کی کوشش
اس سموگ کی لڑائی میں حال ہی میں پاکستانی پنجاب کی حکومت نے پانی کی توپیں خریدی ہیں۔ اس اہم ہتھیار کو اینٹی سموگ گن کہا جاتا ہے۔ یہ توپيں پانی کی فوارے چھوڑ کر ہوا میں تیرتی گرد اور دھوئیں کو زمین پر بٹھا دیتی ہیں۔

بڑھتی آبادی اور ٹریفک میں بے پناہ اضافہ سموگ کی مقامی وجوہات ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

صوبائی حکومت نے 15 ایسی توپيں خریدی ہیں جو خاص طور پر آلودہ مقامات پر استعمال ہو رہی ہیں۔ حالیہ تجربے میں لاہور کے علاقہ کاہنہ میں ان توپوں کی پہلی کارروائی سے آلودگی کی سطح 666 سے گھٹ کر 170 ہو گئی جو 70 فیصد کمی کا اشارہ دیتی ہے۔
ای پی ڈی کے مطابق یہ توپيں صبح و شام کے اوقات میں استعمال ہوتی ہیں جب آلودگی عروج پر ہوتی ہے، اور دیوالی کے بعد ان کی کارروائیوں سے لاہور کی سطح کو 210 سے 240 تک برقرار رکھنے میں مدد ملی۔
مبصرین کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان سموگ کی یہ ’لڑائی‘ دراصل ایک ایسا بحران ہے جو سرحدوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ لاہور کی آلودگی کی سطح جو دیوالی کے بعد دو سو سے اوپر چلی گئی، وہ نہ صرف انڈین پٹاخوں اور فصل جلانے کی وجہ سے بڑھی بلکہ سست ہواؤں نے اسے مزید گہرا کر دیا۔
اسی طرح سے بڑھتی آبادی اور ٹریفک میں بے پناہ اضافہ اس کی مقامی وجوہات ہیں۔ اور دونوں اطراف کے عوام کی طبعی عمر اس سموگ کی آلودگی کی وجہ سے تیزی سے کم ہورہی ہے۔

 

شیئر: