Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واٹس ایپ ہیکنگ: ’جب ایک منتخب عوامی نمائندہ محفوظ نہیں تو عام شہری کہاں جائیں؟‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ہیکرز عام طور پر انسانی نفسیات کو ہدف بناتے ہیں اور اعتماد حاصل کرتے ہیں‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
پاکستان میں آن لائن فراڈ کے نئے طریقے روز بروز پیچیدہ اور مؤثر ہوتے جا رہے ہیں۔ سادہ لوح عوام سے لے کر بااثر شخصیات تک، کوئی بھی ان ہیکرز کے چُنگل سے محفوظ نہیں۔
تازہ ترین واقعے میں ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نکہت شکیل کا واٹس ایپ ہیک ہوا اور نوسربازوں نے اُن کے قریبی افراد سے لاکھوں روپے بٹور لیے۔
یہ واقعہ محض ایک فرد یا شخصیت کا نہیں، بلکہ ملک بھر میں تیزی سے پھیلتے ایک نئے سائبر خطرے کی عکاسی کرتا ہے جس میں واٹس ایپ ہیکنگ کے ذریعے مالی فراڈ معمول بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں آن لائن فراڈ، سوشل میڈیا ہیکنگ اور ڈیجیٹل جعل سازی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کبھی جعلی بینک کالز، کبھی آن لائن سرمایہ کاری کے جال، اور اب واٹس ایپ ہیکنگ کے ذریعے عوام سے لاکھوں روپے لُوٹے جا رہے ہیں۔ 
واٹس ایپ، جو کبھی محفوظ اور ذاتی رابطے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اب نوسربازوں کے لیے ایک آسان ہدف بن چکا ہے۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نکہت شکیل کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہونے کا واقعہ اس بڑھتے ہوئے خطرے کی تازہ مثال ہے۔
ہیکنگ کے اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ایک منتخب عوامی نمائندہ محفوظ نہیں تو عام شہری کہاں جائیں؟
ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نکہت شکیل نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ اُن کا واٹس ایپ اکاؤنٹ اتوار کی صبح ہیک کر لیا گیا۔
ان کے مطابق ’اس کے بعد نامعلوم افراد نے اُن کے قریبی رشتہ داروں، سیاسی ساتھیوں اور جاننے والوں سے رقم وصول کی۔‘
ڈاکٹر نکہت شکیل کا کہنا تھا کہ ’صبح کے اوقات میں اُنہیں مختلف نامعلوم نمبروں سے مسلسل کالز موصول ہوئیں اور ابتدا میں انہوں نے یہ کالز نظرانداز کیں۔‘
تاہم بعدازاں ایک شخص نے خود کو ’پی ایم ڈی‘ نام کے ادارے کا نمائندہ ظاہر کیا اور بتایا کہ اُن کی کچھ سرکاری نوعیت کی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جنہیں فوری طور پر اُن تک پہنچانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کال کرنے والے شخص نے گفتگو کے دوران ان سے ایک چھ ہندسوں پر مشتمل کوڈ مانگا جو اُن کے موبائل پر موصول ہوا تھا۔ 

رکن قومی اسمبلی نکہت شکیل کا واٹس ایپ ہیک کر کے لوگوں سے 15 لاکھ روپے لُوٹ لیے گئے (فائل فوٹو: این اے ایکس)

ڈاکٹر نکہت شکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ پارلیمانی کمیٹی برائے صحت کی رکن ہیں، اس لیے انہوں نے سمجھا کہ یہ کوڈ کسی اجلاس یا سرکاری کارروائی سے متعلق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے لاعلمی میں وہ کوڈ ارسال کر دیا، جس کے نتیجے میں اُن کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا۔
ہیک ہونے کے فوراً بعد نوسربازوں نے اُن کے واٹس ایپ اکاؤنٹ کے ذریعے اُن کے قریبی افراد کو پیغامات بھیجے اور مختلف وجوہات بتا کر مالی مدد طلب کی۔ 
بعض پیغامات میں کہا گیا کہ ’ایک ضروری کام کے لیے فوری رقم درکار ہے‘، جبکہ کچھ میں ’اسلام آباد میں ہنگامی صورت حال‘ کا حوالہ دیا گیا۔ 
چونکہ یہ پیغامات ڈاکٹر نکہت شکیل کے ذاتی موبائل نمبر سے موصول ہو رہے تھے، لہٰذا متعدد افراد نے تصدیق کے بغیر ہی رقم منتقل کر دی۔
ڈاکٹر نکہت شکیل کے مطابق ’چند گھنٹوں کے اندر تقریباً 15 لاکھ روپے مختلف بینک اکاؤنٹس اور موبائل والٹس میں منتقل کیے گئے۔‘
’تاہم بعض افراد نے فون پر تصدیق کرنے کے بعد رقوم بھیجنے سے انکار کر دیا، جس کے باعث مزید نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’واقعہ سامنے آنے کے بعد فوری طور پر متعلقہ بینک سے رابطہ کیا گیا، تاہم بینک حکام نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ متاثرہ اکاؤنٹس اُن کے ادارے کے نہیں ہیں، اس لیے وہ معلومات فراہم نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی شکایت درج کی جا سکتی ہے۔‘

 بیشتر کیسز میں متاثرین خود وہ کوڈ فراہم کرتے ہیں جو واٹس ایپ لاگ اِن کے لیے بھیجا جاتا ہے (فائل فوٹو: سٹرسٹاک)

ڈاکٹر نکہت شکیل نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) سے بھی رابطہ کیا، مگر اُنہیں بتایا گیا کہ ’ادارے کا آن لائن پورٹل اکتوبر سے خراب ہے۔ شکایت تو درج ہو جاتی ہے مگر سسٹم کی خرابی کے باعث کارروائی آگے نہیں بڑھ پاتی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ اسلام آباد میں موجود این سی سی آئی اے کے مرکزی دفتر بھی گئیں مگر ایک گھنٹے کے انتظار کے باوجود متعلقہ افسران موجود نہیں تھے۔ بعدازاں اُنہیں بتایا گیا کہ شکایت صرف کراچی میں درج کرائی جا سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر نکہت شکیل نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایک عوامی نمائندہ جس کی اداروں تک براہِ راست رسائی ہے ایسے حالات میں تعاون سے محروم ہے تو عام شہری کے لیے انصاف تک رسائی کس قدر مشکل ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’متعلقہ اداروں کو ایسے واقعات کی فوری روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ اس نوعیت کے سائبر فراڈ روز بروز بڑھ رہے ہیں اور شہریوں کی ذاتی معلومات اور مالی تحفظ کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔‘
سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق ’واٹس ایپ ہیکنگ ایک نیا مگر تیزی سے پھیلتا ہوا جُرم ہے۔‘ ڈاکٹر نعمان سید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہیکرز عام طور پر انسانی نفسیات کو ہدف بناتے ہیں اور اعتماد حاصل کرتے ہیں۔‘

 پی ٹی اے نے خبردار کیا ہے کہ ’عوام اپنی ذاتی معلومات یا پاس ورڈ کسی سے شیئر نہ کریں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ہیکرز خود کو کسی سرکاری یا معتبر ادارے کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں، اور پھر صارف سے ایک چھوٹا سا کوڈ یا لنک شیئر کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب صارف اپنے واٹس ایپ تک رسائی کھو دیتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہیکرز متاثرہ فرد کے کانٹیکٹس تک رسائی حاصل کر کے اُن کے نام سے پیغامات بھیجتے ہیں اور رقم مانگتے ہیں۔‘
’اس سارے عمل میں بینک اکاؤنٹس اور موبائل والٹس استعمال کیے جاتے ہیں، جن کے مالکان اکثر جعلی شناخت کے حامل ہوتے ہیں۔‘
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ واٹس ایپ ہیکنگ کے درجنوں کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سائبر کرائم کے خلاف کام کرنے والے ادارے کے مطابق بیشتر کیسز میں متاثرین خود وہ کوڈ فراہم کرتے ہیں جو واٹس ایپ لاگ اِن کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
چونکہ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کوڈ واٹس ایپ تک رسائی کا دروازہ ہے، وہ لاشعوری طور پر ہیکرز کو وہ چابی دے دیتے ہیں جس سے اُن کا پورا اکاؤنٹ کھل جاتا ہے۔
سائبر سکیورٹی کے ماہر ڈاکٹر نعمان سید اس بات پر زور دیتے ہیں کہ واٹس ایپ کی ’ٹو سٹیپ ویریفیکیشن‘ لازمی طور پر فعال کی جائے۔‘

سائبر سکیورٹی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ واٹس ایپ کی ’ٹو سٹیپ ویریفیکیشن‘ لازمی طور پر فعال کی جائے (فائل فوٹو: پِکسابے)  

ان کے مطابق ’اس فیچر سے اگر کوئی دوسرا شخص آپ کا اکاؤنٹ لاگ اِن کرنے کی کوشش کرے تو ایک اضافی پاس کوڈ مانگا جاتا ہے۔‘
’اس کے علاوہ کسی نامعلوم نمبر یا شخص کے کہنے پر کبھی بھی ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کوڈ فراہم نہ کیا جائے، چاہے وہ پی ٹی اے، بینک یا کسی سرکاری ادارے کے نام سے ہی کیوں نہ ہو۔‘
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق عوام کی آگاہی کے لیے ادارہ آگاہی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، اس ضمن میں مختلف فورمز پر یہ پیغام عام کر رہے ہیں کہ عوام اپنی ذاتی معلومات یا پاس ورڈ کسی سے شیئر نہ کریں۔‘
ڈاکٹر نکہت شکیل کے واقعے نے یہ بھی واضح کیا کہ بینک اور سرکاری ادارے کس قدر غیر مربوط ہیں۔ بینکوں کو فوری فریزنگ میکانزم اپنانا چاہیے تاکہ جب بھی کسی دھوکہ دہی کی شکایت آئے تو متعلقہ اکاؤنٹس فوراً بلاک کیے جا سکیں۔
دوسری جانب نیشنل سائبر کرائم ایجنسی جیسے اداروں کو جدید ٹیکنالوجی اور تیز کارروائی کی صلاحیت سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرہ افراد کو بروقت انصاف مل سکے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ جُرمیات کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے نے عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’واٹس ایپ جیسے ذاتی پلیٹ فارم پر لوگوں کی بات چیت، تصاویر، معلومات اور کاروباری معاملات موجود ہوتے ہیں۔‘
’جب کوئی نوسرباز ان سب پر قبضہ کر لیتا ہے، تو صرف مالی نقصان نہیں بلکہ اعتماد اور رازداری دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ متاثرہ افراد اکثر شرمندگی یا ڈر کی وجہ سے رپورٹ نہیں کرتے، جس سے مجرموں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔‘
اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے این سی سی آئی اے سے رابطہ کیا گیا لیکن ادارے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

شیئر: