Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد یا کشمیر میں حکومت کی تبدیلی، سندھ ہاؤس کا نام کیوں آتا ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے ہمیشہ زیادہ تر سرگرمیوں کا مرکز اسلام آباد ہوتا ہے اور ان دنوں اہم آئینی و قانونی اداروں کے دفاتر کے بیچ واقع سندھ ہاؤس سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے خبروں میں ہے۔
سندھ ہاؤس کا نام آتے ہی شاید پہلا خیال آئے کہ یہ کسی بڑے سیاست دان کی رہائش گاہ ہو سکتی ہے لیکن یہ اسلام آباد میں  صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام سرکاری رہائش گاہوں کا حصہ ہے جنہیں عام طور پر صوبائی ہاؤسز کہا جاتا ہے۔
ان میں پنجاب ہاؤس، سندھ ہاؤس، خیبر پختونخوا ہاؤس، بلوچستان ہاؤس اور کشمیر ہاؤس شامل ہیں جنھیں صوبائی حکام، وزراء اور سرکاری مہمانوں کے قیام کے لیے بنائے گئے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمارتیں ملکی سیاست کے مرکز، مشاورت گاہیں اور اقتدار کے کھیل کے پسِ پردہ کردار بن گئیں۔
یہ ہاؤسز وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن میں وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے لیے علیحدہ بلاکس، گیسٹ رومز اور رہائشی کمروں پر مشتمل انیکسیز بنی ہوئی ہیں اور ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں وفاقی حکومت یا اس کے ادارے براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے۔
صوبائی حکومتیں ان کمروں کو اپنے وزراء، اراکین اسمبلی، بیوروکریٹس اور مخصوص شہریوں کو یومیہ کرائے پر بھی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم ماضی میں یہ ہاؤسز ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی سرگرمی یا بحران کے وقت توجہ کا مرکز بنتے رہے ہیں۔
90 کی دہائی میں جب نواز شریف قائدِ حزبِ اختلاف تھے تو پنجاب ہاؤس پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں مختلف اجلاس منعقد ہوتے، پارٹی حکمتِ عملی طے کی جاتی اور بعض اوقات اہم سیاسی فیصلے بھی وہیں سے سامنے آئے۔
بعد ازاں پرویز مشرف کے دور میں وکلا تحریک کے دوران پنجاب حکومت کے مخالفانہ ردعمل کی منصوبہ بندی کے لیے بھی یہی عمارت استعمال ہوتی رہی۔
اسی طرح کے پی ہاؤس نے بھی مختلف ادوار میں سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں یہ عمارت پارٹی کی حکمتِ عملی کے لیے مرکزی جگہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
جب خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے وزراء، اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنما اسلام آباد آتے تو ان کی بیشتر ملاقاتیں اور مشاورتیں کے پی ہاؤس ہی میں ہوتی تھیں۔
یہاں احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور جلسوں سے قبل حکمت عملی طے کی جاتی رہی۔
2014 کے دھرنے کے دوران متعدد اجلاس اسی عمارت میں ہوئے جہاں سے کارکنوں کے لیے ہدایات جاری کی جاتی تھیں۔
2024 میں جب وفاق اور صوبوں کے درمیان کشیدگی بڑھی تو وفاقی حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کے پی ہاؤس میں کارروائی کی۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور خود بھی وہاں موجود تھے، تاہم وہ گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے کے بعد کے پی ہاؤس ایک مرتبہ پھر سیاسی تنازعے کا مرکز بن گیا۔
دوسری جانب سندھ ہاؤس کی تاریخ قدرے مختلف مگر زیادہ متنازع رہی ہے۔ اسلام آباد کے اسی حساس علاقے میں واقع سندھ ہاؤس کو 1973-74 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔
اس کا بنیادی مقصد صوبائی وزراء اور افسران کو وفاقی دارالحکومت میں قیام کے دوران سہولت فراہم کرنا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمارت سیاسی مشاورت، خفیہ ملاقاتوں اور اقتدار کی تبدیلی کے اشاروں کا مرکز بھی بنی۔

1988 میں جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تو سندھ ہاؤس کو عبوری طور پر وزیراعظم ہاؤس قرار دیا: فوٹو اے ایف پی

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے موقعے پر سندھ ہاؤس نے ملکی سیاست میں ایک بار پھر طوفان برپا کیا۔
تحریکِ انصاف کے منحرف اراکینِ قومی اسمبلی کو اسی عمارت میں پناہ دی گئی، جس کے بعد یہ وفاقی حکومت اور عوامی تنقید کا نشانہ بن گیا۔
سوشل میڈیا پر اس کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور سندھ ہاؤس کو وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کا ٹھکانہ قرار دیا گیا۔ اس وقت کی تحریک انصاف حکومت نے یہاں کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن جب منحرف اراکین میڈیا کے سامنے آئے اور اپنا موقف دیا تو ممکنہ آپریشن روک دیا گیا۔
تحریک انصاف کے کارکنان نے سندھ ہاؤس پر حملہ بھی کیا اور اس کے گیٹ کو نقصان پہنچا جس پر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوئے اور دو ارکان اسمبلی کو گرفتار بھی کیا گیا۔ 
اب ایک بار پھر سندھ ہاؤس کا ماحول سیاسی سرگرمیوں سے گونج رہا ہے۔ کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی تیاری کے دوران تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان کو اسی عمارت میں ٹھہرایا گیا ہے۔
ان کی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں اور عشائیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے اراکین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو تحریکِ عدم اعتماد میں حصہ لینے اور پیپلز پارٹی کی ممکنہ نئی حکومت کے قیام میں تعاون پر آمادہ ہیں۔ یوں سندھ ہاؤس ایک مرتبہ پھر اقتدار کی کشمکش میں منحرف ارکان کا مسکن بن چکا ہے۔ 
سندھ حکومت کے محکمہ ورکس کے مطابق، سندھ ہاؤس میں تقریباً 97 ملازمین تعینات ہیں جو انتظامات، دیکھ بھال اور سکیورٹی کے امور انجام دیتے ہیں۔
یہ عمارت مختلف بلاکس پر مشتمل ہے جن میں تقریباً 30 کمرے، وسیع لابیز، ہالز، لانز اور ایک جامع مسجد شامل ہے۔
ججز کالونی سے متصل ہونے کے باعث سپریم کورٹ کے بعض ججز بھی یہاں نماز کے لیے آتے ہیں۔
سندھ ہاؤس کی تزئین و آرائش میں سندھ کی ثقافت نمایاں ہے۔ راہداریوں میں روایتی اجرک، خطاطی اور ٹائل ورک سندھ کے ثقافتی ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔

2024 کے پی ہاؤس ایک مرتبہ پھر سیاسی تنازعے کا مرکز بن گیا اور اسے بعد بھی سیل بھی کر دیا گیا: فوٹو سی ڈی اے

پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار میں یہ عمارت نہ صرف رہائش گاہ بلکہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ یہاں پریس کانفرنسیں، عشائیے اور حکمت عملی کے اجلاس معمول کی بات سمجھے جاتے رہے ہیں۔
کیئر ٹیکر محمد ریاست کے مطابق سندھ ہاؤس 25 ایکڑ پر پھیلا ایک تاریخی مقام ہے جسے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اسے دو مواقعوں پر وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دیا گیا۔
1988 میں جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ایوانِ وزیراعظم میں تزئین و آرائش جاری تھی، اس دوران انھوں نے سندھ ہاؤس کو عبوری طور پر وزیراعظم ہاؤس قرار دیا۔
بعد میں بھی مختلف مواقعوں پر اسے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان کے بقول یہاں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سمیت سندھ کی بڑی سیاسی شخصیات کے علاوہ کئی عالمی رہنما بھی قیام کر چکے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں سندھ ہاؤس کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا، تاہم 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد اسے دوبارہ کھولا گیا اور جدید طرز پر اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔
آج بھی سندھ ہاؤس نہ صرف صوبائی نمائندوں کی قیام گاہ ہے بلکہ اسلام آباد کے سیاسی منظرنامے میں ایک فعال مقام کے طور پر موجود ہے جہاں کبھی فیصلے خفیہ طور پر ہوتے ہیں اور کبھی اقتدار کے نئے کھیل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
 

شیئر: