پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق، مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو ہوگا
پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق، مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو ہوگا
جمعرات 30 اکتوبر 2025 19:10
بات چیت کی بحالی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل اسلام آباد نے کہا تھا کہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
افغانستان اور پاکستان نے جمعرات کو استنبول میں ہونے والے امن مذاکرات میں جنگ بندی کو جاری رکھنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ترک وزارات خاجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور قطر نے 25 تا 30 اکتوبر 2025 تک استنبول میں مذاکرات کیے جن کا مقصد اُس جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان 18 تا 19 اکتوبر 2025 کو دوحہ میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی سے طے پائی تھی۔’مذاکرات میں تمام فریقوں نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے مزید طریقہ کار پر 6 نومبر 2025 کو استنبول میں پرنسپل سطح کی ملاقات میں غور و خوض کیا جائے گا اور فیصلہ کیا جائے گا۔
’تمام فریقوں نے نگرانی اور توثیقی نظام قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن کے قیام کو یقینی بنائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرے گا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ثالثوں کی حیثیت سے ترکیہ اور قطر دونوں فریقوں کی فعال شمولیت پر اظہارِ تشکر کرتے ہیں اور دیرپا امن و استحکام کے لیے دونوں جانب کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
قبل ازیں برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چار باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ دونوں ممالک نے ترکی اور قطر کی درخواست پر بات چیت دوبارہ شروع کی ہے۔
جمعرات کو یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ایک روز قبل اسلام آباد نے کہا تھا کہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں۔
ایک پاکستانی سکیورٹی عہدیدار نے بتایا تھا کہ اسلام آباد مذاکرات میں اپنا بنیادی مطالبہ پیش کرے گا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے وہاں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کے قریبی ایک ذریعے نے کہا تھا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان زیادہ تر مسائل کامیابی سے اور پُرامن طور پر حل کر لیے گئے ہیں، تاہم پاکستان کے چند مطالبات ایسے ہیں جن پر فوری اتفاق ممکن نہیں اور ان کے لیے کچھ مزید وقت درکار ہے۔‘
اسلام آباد طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبانکی میزبانی کر رہے ہیں، جو پاکستان کی مخالف ایک الگ عسکریت پسند تنظیم ہے، اور انہیں افغان سرزمین سے پاکستانی افواج پر حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔ کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس گروہ پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں۔
افغان طالبان، پاکستان کی فوج اور وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کابل میں وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے وزارتِ داخلہ میں ایک اجلاس سے ویڈیو خطاب میں پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ اپنے داخلی سکیورٹی مسائل حل کرے نہ کہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی پیدا کرے، بصورتِ دیگر اس کا ’خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے ایک آپریشن میں گروپ کے نائب سربراہ قاری امجد کو افغان سرحد کے قریب ہلاک کر دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے کہا کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات چاہتا ہے، تاہم اگر حملہ کیا گیا تو اپنا دفاع کرے گا۔ سراج الدین حقانی نے کہا کہ طالبان نے تصادم اور مذاکرات، دونوں میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور افغانستان باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔
تشدد روکنا مذاکرات کا مرکزی مقصد
رواں ماہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جو 2021 میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد سب سے سنگین جھڑپیں تھیں۔
اکتوبر کے اوائل میں پاکستان کی جانب سے کابل سمیت کئی مقامات پر فضائی حملے کیے گئے، جن کا ہدف پاکستانی طالبان کا سربراہ بتایا گیا۔ اس کے جواب میں افغان طالبان حکومت نے 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے مختلف حصوں پر پاکستانی فوجی چوکیوں پر جوابی حملے کیے۔ سرحد تاحال بند ہے۔
دونوں ممالک نے 19 اکتوبر کو دوحہ میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی سے ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تاہم استنبول میں ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات میں فریقین کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
جنگ بندی کے باوجود پاکستانی فوج اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، جن میں اتوار اور بدھ کے روز دونوں جانب سے کئی ہلاکتوں کی اطلاع ملی۔
جمعرات کو پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے ایک آپریشن میں گروپ کے نائب سربراہ قاری امجد کو افغان سرحد کے قریب ہلاک کر دیا ہے۔ قاری امجد کو امریکہ کی جانب سے ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ اور دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق وہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران مارا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان نے بھی اس کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔