پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات استنبول میں دوبارہ شروع
پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات استنبول میں دوبارہ شروع
جمعرات 30 اکتوبر 2025 19:10
جمعرات کو مذاکرات کی بحالی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل اسلام آباد نے کہا تھا کہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
افغانستان اور پاکستان نے جمعرات کو استنبول میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چار باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ دونوں ممالک نے ترکی اور قطر کی درخواست پر بات چیت دوبارہ شروع کی ہے تاکہ سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو، جن میں رواں ماہ درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعرات کو یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل اسلام آباد نے کہا تھا کہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں۔
ایک پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ اسلام آباد مذاکرات میں اپنا بنیادی مطالبہ پیش کرے گا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے وہاں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کے قریبی ایک ذریعے نے کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان زیادہ تر مسائل کامیابی سے اور پُرامن طور پر حل کر لیے گئے ہیں، تاہم پاکستان کے چند مطالبات ایسے ہیں جن پر فوری اتفاق ممکن نہیں اور ان کے لیے کچھ مزید وقت درکار ہے۔‘
اسلام آباد طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبانکی میزبانی کر رہے ہیں، جو پاکستان کی مخالف ایک الگ عسکریت پسند تنظیم ہے، اور انہیں افغان سرزمین سے پاکستانی افواج پر حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔ کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس گروہ پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں۔
افغان طالبان، پاکستان کی فوج اور وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کابل میں وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے وزارتِ داخلہ میں ایک اجلاس سے ویڈیو خطاب میں پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ اپنے داخلی سکیورٹی مسائل حل کرے نہ کہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی پیدا کرے، بصورتِ دیگر اس کا ’خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
جمعرات کو پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے ایک آپریشن میں گروپ کے نائب سربراہ قاری امجد کو افغان سرحد کے قریب ہلاک کر دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے کہا کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات چاہتا ہے، تاہم اگر حملہ کیا گیا تو اپنا دفاع کرے گا۔ سراج الدین حقانی نے کہا کہ طالبان نے تصادم اور مذاکرات، دونوں میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور افغانستان باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔
تشدد روکنا مذاکرات کا مرکزی مقصد
رواں ماہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جو 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سب سے سنگین جھڑپیں تھیں۔
اکتوبر کے اوائل میں پاکستان کی جانب سے کابل سمیت کئی مقامات پر فضائی حملے کیے گئے، جن کا ہدف پاکستانی طالبان کا سربراہ بتایا گیا۔ اس کے جواب میں افغان طالبان حکومت نے 2,600 کلومیٹر طویل سرحد کے مختلف حصوں پر پاکستانی فوجی چوکیوں پر جوابی حملے کیے۔ سرحد تاحال بند ہے۔
دونوں ممالک نے 19 اکتوبر کو دوحہ میں ترکی اور قطر کی ثالثی سے ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تاہم استنبول میں ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات میں فریقین کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
جنگ بندی کے باوجود پاکستانی فوج اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، جن میں اتوار اور بدھ کے روز دونوں جانب سے کئی ہلاکتوں کی اطلاع ملی۔
جمعرات کو پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے ایک آپریشن میں گروپ کے نائب سربراہ قاری امجد کو افغان سرحد کے قریب ہلاک کر دیا ہے۔ قاری امجد کو امریکہ کی جانب سے ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ اور دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق وہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران مارا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان نے بھی اس کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔