Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

27ویں ترمیم کیا ہے؟ جس کے لیے وزیراعظم نے پیپلز پارٹی کی مدد مانگی ہے

پاکستان میں سیاسی ماحول ایک بار پھر گرم ہو گیا ہے اور اس بار اس کی وجہ ہے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا وہ ٹویٹ جس میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت 27ویں ترمیم لے کر آ رہی ہے۔
انہوں نے پیر کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’وزیراعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کے ایک وفد نے صدر آصف علی زرداری اور مجھ سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں انہوں نے 27ویں ترمیم پاس کروانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مدد مانگی ہے۔ متوقع ترمیم میں آئینی عدالت کے قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی تعیناتی، ججز کی ٹرانسفر، صوبوں کے این ایف سی شیئر کے تحفظ کا اختتام، آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی وزارتوں کی وفاق کو واپسی اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر ڈیڈ لاک کا اختتام شامل ہیں۔‘
’پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ چھ نومبر کو طلب کر لی گئی ہے صدر پاکستان کی دوحہ سے واپسی پر پارٹی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔‘
بلاول بھٹو زرداری کے اس ٹویٹ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جو ماضی میں اس ترممیم پر بہت کم بات کر رہی تھی، اصل میں اس نئی ترمیم کی پوری طرح سے تیاری کر رہی تھی۔ ملک کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ماضی میں 27 ویں ترمیم پر بات کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس ترمیم پر بات 26 ویں ترمیم کے فوری بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔
تاہم سوال یہ ہے کہ بلال بھٹو زرداری کی جانب سے 27 ویں ترمیم کے چند اہم پہلو منظرعام پر رکھنے سے کس حد اس نئی نئی ترمیم کے خدوخال واضح ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے اردو نیوز نے وکیل رہنما احسن بھون سے جب بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’27 ویں ترمیم بہت ضروری ہے، خاص طور پر آئینی عدالتوں کے قیام سے جوڈیشل سسٹم میں نہ صرف بہتر آئے گی بلکہ ملک کا فائدہ ہو گا۔ ہم اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے، اچھی بات ہے کہ حکومت نے بالآخر فیصلہ کر لیا ہے۔‘
’ابھی میں نے ترمیم کا مسودہ نہیں پڑھا لیکن جو باتیں سامنے آئی ہیں اس میں اب واضح ہو گیا ہے کہ حکومت نے ترمیم کی تیاری کر لی ہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل اس فیصلے کے ساتھ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئینی عدالت اصل میں عام آدمی کے لیے کئی برسوں سے زیرالتوا کیسز کی جلدی سماعت کی طرف ایک قدم ہو گا۔ آئینی درخواستوں پر مہینوں مہینوں سماعتیں ہوتی رہتی ہیں اور عام عادمی کے کیسز نہیں سنے جاتے۔ اب وہ اشرافیہ کی عدالت علیحدہ ہو جائے گی تو صرف اور صرف عوام کے کیسز سنے جائیں گے۔‘
تاہم احسن بھون کا کہنا تھا کہ وہ دیگر نکات پر مسودہ دیکھے بغیر بات نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو کے ٹویٹ سے جو 27ویں ترمیم کے خدوخال پہلی مرتبہ واضح ہوئے ہیں ان میں دوسری اہم بات آرٹیکل 243 میں ترمیم سے متعلق بات ہے۔ خیال ہے کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 234 صدر مملکت کے اختیارات اور صدر کی افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ اسی آرٹیکل میں صدر مسلح افواج کے سربراہان کو بھی تعینات کرتے ہیں۔
پیر کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سینئیر صحافیوں سے ایک ملاقات کی جس میں کم از کم دو صحافیوں نے اس مجوزہ ترمیم سے متعلق سوال کیا۔ سینیئر صحافی اجمل جامی جو اس ملاقات میں موجود تھے، انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے یہ سوال کیا کہ کیا کوئی چیف ڈیفنس سٹاف یا سپریم کمانڈر کا نیا عہدہ تخلیق ہونے جا رہا ہے؟ شہزاد اقبال صاحب نے براہ راست بلاول بھٹو کا ٹویٹ بیان کر کے یہی سوال کیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آئین میں کیا ترمیم ہو گی یا نہیں یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ ہم بس اپنا ان پٹ دیتے ہیں۔‘
تاہم ابھی تک یہ ابہام ہے کہ حکومت 27ویں ترمیم کے ذریعے اس انتہائی اہم آرٹیکل میں کیا تبدیلی کرنے جا رہی ہے۔ اسی طرح ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی جو بات کی گئی اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی دور سے حکومت براہ راست اپنے افسروں کو مجسٹریٹ تعینات کرتی تھیں اور پاکستان بننے کے بعد بھی بڑا عرصہ یہ نظام چلتا رہا جس کو بعد ازاں ختم کر دیا گیا اور مجسٹریٹس صرف عدلیہ کے ذریعے بھرتی ہوتے ہیں، تاہم اب حکومت دوبارہ مجسٹریٹ تعینات کرنے اختیار واپس لینا چاہتی ہے۔
اسی طرح ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق بلاول کے ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ اس جج کی مرضی اور متعلقہ چیف جسٹس کی منظوری سے ہوتی تھی۔ تاہم اس ترمیم سے متعلق بھی جب تک مسودہ سامنے نہیں آتا یہ واضح نہیں کہ کیا حکومت جج کی مرضی کا پہلو حذف کرنا چاہتی ہے یا نہیں، کیونکہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کے ٹرانسفر پوسٹنگ میں ان کی مرضی جاننا ضروری نہیں ہے۔
این ایف سی ایوارڈ اور تعلیم آبادی کی وزارتیں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حوالے کی گئی تھیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اب جزوی طور پر وفاقی حکومت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے حکومت بظاہر کچھ اختیارات واپس سمیٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے آئینی عہدے کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی بدلا جا رہا ہے اس سے پہلے لیڈر آف دی ہاؤس یعنی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے یہ عہدہ دیا جاتا ہے۔

 

شیئر: