Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوگل کروم نہیں، کروم بُک!۔۔۔ سوشل میڈیا پر وائرل خبر کی اصل کہانی

پنجاب میں ’گوگل کروم‘ آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آج کل یہ جملہ وائرل رہا۔ ہوا اصل میں یوں ہے کہ صوبہ پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے ایک ملازم سیف اعوان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز سے متعلق ایک خبر شیئر کی، جس میں بتایا گیا کہ انہوں نے گوگل فار ایجوکیشن اور ایک مقامی کمپنی ٹیک ویلی کے عہدیداروں سے ملاقات میں ’کروم بک‘ کی مقامی پیداوار میں مکمل مدد کی یقین دہانی دلائی ہے۔

چونکہ اس ٹویٹ میں پوری بات نہیں لکھی جا سکی تھی، اس لیے اسے سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ایک صارف اویس سلیم نے لکھا کہ ’کوئی ترکیب کر کے کیا مائیکروسافٹ انٹرنیٹ ایکسپلورر بھی پنجاب میں نہیں لا سکتے؟‘
اسی طرح سینکڑوں صارفین نے مزاحیہ تبصرے کیے اور اس طرح ’گوگل کروم پنجاب میں لانے کا اعلان‘ سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ صورت حال اختیار کر گیا۔ مذاق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گوگل کروم ایک انٹرنیٹ ایکسپلورر ہے جو تقریباً ہر کمپیوٹر اور موبائل پر دستیاب ہے۔ جبکہ کروم بُک ایک ڈیوائس ہے جس میں صرف اور صرف گوگل کروم اور گوگل کی دیگر مصنوعات ہی انسٹال ہو سکتی ہیں۔
پیر کو گوگل فار ایجوکیشن اور نجی کمپنی ٹیک ویلی کی ٹیموں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ملاقات کی تھی۔ وزیراعلٰی آفس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس ملاقات میں وزیراعلٰی نے دونوں کمپنیوں کو پنجاب میں گوگل کروم بُک کی فیکٹری لگانے کی پیشکش کی اور اس معاملے میں حکومت کی طرف سے ہر طرح کی سپورٹ فراہم کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا۔
وزیراعلٰی کو بتایا گیا کہ گوگل فار ایجوکیشن نے پنجاب کے دو ہزار اساتذہ کو تربیت بھی دی ہے اور مزید کو تربیت دی جا ری ہے۔
خیال رہے کہ گوگل فار ایجوکیشن اور ٹیک ویلی نے اسی برس کے اوائل میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ٹیک ویلی مقامی سطح پر کروم بُکس کو اسیمبل کرے گی۔ 

کروم بُک ہے کیا؟

کروم بک ایک خاص قسم کا لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ ہے جو گوگل کمپنی خود بنا رہی ہے اور اسے کروم او ایس نامی آپریٹنگ سسٹم پر چلایا جاتا ہے۔ یہ روایتی کمپیوٹرز سے مختلف ہے کیونکہ اس کا زیادہ تر کام انٹرنیٹ یا کلاؤڈ (آن لائن سٹوریج) پر ہوتا ہے یعنی آپ کی فائلیں اور ایپس براہ راست ویب پر محفوظ رہتی ہیں۔ اسے خاص طور پر تعلیم، کام اور روزمرہ استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں سادگی اور رفتار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کروم بک کو ’براؤزر میں ایک باکس‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد گوگل کا مشہور براؤزر کروم ہے جو ویب براؤزنگ کو آسان بناتا ہے۔
گوگل نے کروم او ایس کا پروجیکٹ جولائی 2009 میں شروع کیا۔ جب اسے ایک ایسا آپریٹنگ سسٹم تصور کیا گیا جو مکمل طور پر کلاؤڈ پر مبنی ہو۔ تاہم پہلی کروم بک مئی 2011 میں لانچ ہوا جب گوگل نے ایسر اور سیمسنگ جیسی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کی۔ ابتدائی ماڈلز کو گوگل آئی او کانفرنس میں پیش کیا گیا اور سنہ 2013 میں ہائی اینڈ ورژن کروم بک پکسل متعارف ہوا۔ اب تک کروم بکس کو آئے 10 برس سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے اور یہ تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ڈیوائس بن گیا ہے۔

پنجاب اور کروم بک

پنجاب میں کروم بکس کا سفر سنہ 2024 میں شروع ہوا جب وزیراعلٰی مریم نواز نے آسٹریلوی فرم ’الیڈ‘ کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا۔ اس کے تحت کروم بکس کی مقامی سطح پر اسمبلنگ کا منصوبہ بنایا گیا جو تعلیمی اداروں کو سستے آلات فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
ابتدائی طور پر یہ سہولت سرکاری سکولوں تک محدود رکھی گئی، جہاں ہائی سکول اور انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں (نویں سے 12ویں جماعت) کے طلبہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ستمبر 2025 میں لاہور کے گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول میں ’گوگل فار ایجوکیشن سینٹر آف ایکسیلنس‘ کا افتتاح ہوا جہاں کروم بکس کو بنیادی ڈیوائس بنایا گیا۔ اب تک صوبے بھر میں ہزاروں سکولوں میں یہ متعارف ہو چکا ہے جن میں سے کئی سرکاری سکیموں کے تحت مفت تقسیم کیے گئے۔
حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ 50 ہزار سرکاری سکولوں میں کروم بکس مفت تقسیم کی جائیں گی اور کم از کم ایک سکول میں 200 کروم بُکس دی جائیں گی۔ کروم بکس پر تعلیم کی افادیت یہ ہے طلبا کو فوری طور پر ویڈیوز، نوٹس اور آن لائن مشقیں دستیاب ہو جاتی ہے۔ اس کی بیٹری لائف 8-10 گھنٹے ہے اور ’جیمنی‘ جیسے اے آئی ٹولز بھی موجود ہیں۔ اسی طرح ’ریڈ الانگ‘ ایپ بچوں کو انگریزی پڑھنے میں مدد دیتی ہے جبکہ گروپ پروجیکٹس میں کلاؤڈ شیئرنگ سے کام تیز ہو جاتا ہے۔
پاکستانی مارکیٹ میں کروم بکس کے نئے ماڈلز نو ہزار سے 25 ہزار روپے تک میں دستیاب ہیں۔ جبکہ استعمال شدہ ڈیوائس ساڑھے چھ ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مقامی فیکٹری کھلنے سے یہ قیمتیں مزید کم ہو سکتی ہیں کیونکہ درآمداتی ٹیکس اور شپنگ کی لاگت ختم ہو جائے گی۔ ٹیک ویلی اور گوگل کے درمیان ایم او یو جنوری 2025 میں دستخط ہوا جس کے تحت دو لاکھ کروم بکس کی مقامی پیداوار اور اے آئی ٹریننگ شامل ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی ایسی فیکٹری ہو گی۔

شیئر: