افغان طالبان کی خواتین عملے پر پابندیاں، اقوام متحدہ کا افغانستان-ایران سرحد پر کام معطل
اسلام قلعہ وہ مرکزی گزرگاہ ہے جہاں سے ایران سے نکالے گئے افغان واپس آتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
طالبان حکومت کی جانب سے افغان خواتین کارکنوں پر نئی پابندیوں کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان اور ایران کے درمیان ایک اہم سرحدی گزرگاہ پر کام معطل کر دیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق منگل کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ کار اندرِیکا رَتواتے نے ان پابندیوں کی تفصیلات تو نہیں بتائیں، لیکن خبردار کیا کہ یہ ’فوری عملی مشکلات‘ پیدا کر رہی ہیں اور ’واپس آنے والے افراد، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں‘ کے لیے اضافی خطرات کا باعث بن رہی ہیں۔
اسلام قلعہ وہ مرکزی گزرگاہ ہے جہاں سے ایران سے نکالے گئے افغان واپس آتے ہیں۔
رَتواتے نے کہا کہ ’اقوام متحدہ اور انسانی امداد کے شراکت داروں نے آج اسلام قلعہ سرحد پر کام معطل کر دیا ہے، کیونکہ نئی پابندیاں خواتین عملے کو سرحد پر کام کرنے سے روک رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خواتین عملے کے بغیر ہم واپس آنے والی خواتین اور بچوں کو عزت اور وقار کے ساتھ خدمات فراہم نہیں کر سکتے۔‘
ہرات میں اقوام متحدہ کے ایک افغان کارکن نے منگل کو بتایا کہ ’اسلام قلعہ یا انصار کیمپ میں مہاجرین کے لیے کوئی خدمات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔‘
ایک غیرسرکاری تنظیم کے کارکن نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے بھی اسلام قلعہ میں اپنی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے پہلے ہی افغانستان واپس آنے والوں کو امداد فراہم کرنا معطل کر دی تھی، کیونکہ ’عبوری حکومت کی ہدایات کے مطابق افغان خواتین عملے کو کام کرنے سے روکا گیا ہے۔‘
سنہ 2022 میں طالبان نے غیرسرکاری تنظیموں کو افغان خواتین کو ملازمت دینے سے روک دیا تھا، اور سنہ 2023 میں یہ پابندی اقوام متحدہ کی ایجنسیوں تک بڑھا دی گئی۔
