افغان طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) کے بعد جب امریکی سرپرستی میں کابل میں ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی تو افغان خواتین نے تعلیم اور مختلف شعبوں میں نمایاں شمولیت اختیار کی۔ یہاں تک کہ سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں خواتین سیاست اور سفارتکاری میں بھی نظر آئیں۔
لیکن جب 15 اگست 2021 میں طالبان نے ایک مرتبہ پھر کابل کا کنٹرول حاصل کیا تو اس مرتبہ بتدریج ملک کی عوامی زندگی کے منظر نامے سے خواتین کو غائب کر دیا گیا اور ان کو چادر و چاردیواری تک محدود کیا جس پر اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک جنس پر مبنی امتیاز یا ’جینڈر اپارتھائیڈ‘ کے برابر ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
تاہم طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ’اسلامی امارت اسلامی شریعت کے تحت خواتین کو دیے گئے حقوق کی فراہمی اور حفاظت کی مکمل ذمہ دار ہے۔‘ اور موجودہ دور میں ’خواتین کے خلاف تمام قسم کے تشدد اور زیادتی کو موثر طریقے سے روکا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
خواتین چہرہ چھپائیں یا نہیں ان کی مرضی: طالبان ترجمان سہیل شاہینNode ID: 594326
افغان خواتین کی حالت زار سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم (جلا وطن) افغان خواتین مختلف پلیٹ فارمز پر آواز بلند کر رہی ہیں اور ان کے حقوق کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہی ہیں۔
مارچ سے بیرون ملک مقیم افغان خواتین نے ’ریڈ فار افغانستان ویمن‘ اور ’مائی لپس مائی وائس‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک نئی آن لائن مہم شروع کی جس میں وہ سرخ لپ سٹک لگا کر افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی صورتحال سے متعلق دنیا کو آگاہ کر رہی ہیں۔
اس سے قبل بھی افغان خواتین نے گانوں، روایتی لباس، ’خطِ سرخ من‘ اور سرخ گلاب جیسی آن لائن مہمات کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔
ڈنمارک میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن اور غیرسرکاری ادارے ’امپاورمنٹ فار ہَر‘ کی مینجنگ ڈائریکٹر تہمینہ سالک نے رواں برس سرخ لپ سٹک لگا کر’ریڈ فار افغانستان ویمن‘ اور ’مائی لپس مائی وائس‘ کا آغاز کیا اور ایک ویڈیو پوسٹ کی کہ ’سرخ لپ سٹک کو خواتین کی تحریکوں کی تاریخ میں ہمیشہ طاقت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
ویڈیو میں وہ کہتی ہیں کہ سرخ لپ سٹک لگا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کی تاریخ طویل ہے اور افغان خواتین بھی اسی تحریک کا حصہ بن گئی ہیں۔
Fighting the Taliban with singing and lipsticks.@tahminasalik pic.twitter.com/QbEYFs0ooy
— Afghan Diaspora Network (@af_diaspora) May 30, 2025
تہمینہ سالک کے مطابق سرخ لپ سٹک تاریخی طور پر سماجی دباؤ کے خلاف خواتین کی طاقت اور مزاحمت کی علامت رہی ہے۔
میک اپ میوزیم کے مطابق 20ویں صدی کے آغاز میں سرخ لپ سٹک طاقت اور قوت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ میں حق رائے دہی کی تحریک کے دوران نے خواتین نے سرخ لپ سٹک استعمال کرتی تھیں اور پرامن احتجاج کرتی تھیں۔
’بین الاقوامی برادری کی خاموشی‘
بیرون ملک مقیم افغانستان کی سابق پارلیمان کی خواتین اور انسانی حقوق کی کارکنان کا شکوہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کی حالت زار پر بین الاقوامی برادری نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔
یورپ میں افغان صحافی فیروزہ عزیزی کا ماننا ہے کہ افغان خواتین کے حقوق کی صورتحال کو اجاگر کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ’بیرون ملک مقیم خواتین نے اپنی آواز بلند کی ہے لیکن میری نظر میں اس طرح کی آن لائن مہمات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان پر دباؤ ڈالیں۔‘
طالبان نے 2022 میں نے لڑکیوں کے سیکنڈری سکول اور یونیورسٹی تعلیم پر پابندی عائد کی، 2021 میں خواتین سرکاری ملازمیں کو گھر بھیج دیا گیا۔ امدادی اداروں کی خواتین کے روزگار کو محدود کیا، پردہ لازمی قرار دیا اور پارکوں اور عوامی مقامات تک رسائی بھی روک دی ہے۔ جبکہ گزشتہ برس طالبان کی جانب سے عوامی مقامات پر خواتین کو اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا اور رہائشی عمارتوں میں ایسی کھڑکیوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی۔

یورپ ہی میں انسانی حقوق کی کارکن وژمہ سائل کے مطابق آج بھی طالبان کے دورِ حکومت میں افغان خواتین کی زندگیوں کو پابندیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
’یہ چوتھا سال ہے کہ افغانستان کی آبادی کے 55 فیصد حصے یعنی خواتین کو تعلیم، کام، آزادی سے نقل و حرکت اور انصاف کے حصول میں پابندی کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود افغان خواتین نے خاموشی اختیار نہیں کی ہے، وہ اب بھی خطرات کے باجود اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں اور وہ چُپ نہیں بیٹھی ہیں۔ آج بھی سڑکوں پر خواتین احتجاج کرتی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز دنیا کو پہنچا رہی ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہاں متعدد خواتین کو خطرات کو سامنا ہے جیسے کو ان کو قید کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔‘
وژمہ سائل کے مطابق کابل پر طالبان کے کنٹرول کے فوراً بعد بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت مذمتی بیانات سامنے آتے تھے لیکن اب خاموشی ہے اور عملی اقدامات بھی نظر نہیں آتے۔
’اب محض ایک بیان جاری کر دیا جاتا ہے۔ یا کوئی آرٹیکل لکھ دیا جاتا ہے۔ یا کوئی ٹویٹ کر دی جاتی ہے۔ ایسا کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا جو افغان خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لا سکے۔‘
حالیہ برسوں میں افغان خواتین کے حقوق سے متعلق چلنے والے آن لائن مہم
لیٹ افغان گرلز لرن
یہ مہم اس وقت شروع کی گئی تھی جب طالبان نے ستمبر 2021 میں لڑکیوں کی سیکنڈری سکول کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی۔ آج 1356 دن ہو گئے اور لڑکیوں کی سکولوں پر تالے لگے ہیں۔
افغان ویمن میٹرز
اس ہیش ٹیگ کے تحت بھی خواتین پر عائد پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔
اینڈ جینڈر اپارتھائیڈ
افغان خواتین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ افغانستان سے جنس پر مبنی امتیاز کو ختم کیا جائے۔
گانوں اور نظموں کی ویڈیوز کے ذریعے احتجاج
افغان خواتین نے طالبان کے سخت قوانین کے خلاف آن لائن ویڈیوز شیئر کرکے احتجاج کیا۔
افغانستان کلچر
ستمبر 2021 میں دنیا بھر میں افغان خواتین نے اپنی شناخت کے لیے اس وقت رنگ برنگی ثقافتی لباس میں آن لائن تصاویر شیئر کیں جب کابل یونیورسٹی میں طالبان کی حمایت میں سیاہ رنگ کا لباس اور نقاب پہنے خواتین نے مظاہرہ کیا۔
خطِ سرخ من یا مائی ریڈ لائن
یہ تحریک مارچ 2019 میں شروع ہوئی تھی اور تب خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ’میں آزادی کی گیت گاؤں گی، بار بار آزادی کے لیے۔‘
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یوناما نے رواں برس کی پہلی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین پر طالبان کی سختیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انہیں کام کے مواقع دینے سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے اور ان کو کسی مرد رشتہ دار کے بغیر خدمات تک رسائی حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
سویڈن کی غیرسرکاری تنظیم سولیڈیرٹی کمیٹی فار افغانستان نے کہا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں شمولیت پر پابندیاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
صوبہ ننگرہار سے افغان پارلیمان کی سابق رکن صائمہ خوگیانی کا کہنا ہے کہ پہلے بھی افغان معاشرے میں مشکلات تھیں، لیکن جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مشکلات خصوصاً خواتین کے لیے بڑھ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی افغانستان میں طب کے شعبے خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی تھی اور جو تھوڑی بہت اب خدمات انجام دے رہی تھیں وہ اب گھر بیٹھ گئی ہیں۔
’خواتین اور لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اگر موجودہ تعلیم یافتہ نسل وقت کے ساتھ ختم ہو گئی تو نئی نسل کے پاس یہ موقع نہیں ہوگا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ تعلیم سے ایک دن کی محرومی بھی کسی معاشرے کو برسوں پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ افغانستان میں چار سال سے لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اور روزگار تک رسائی حاصل نہیں۔ مالی طور پر بھی خواتین پیچھے رہ گئی ہیں اور ان میں ایسی کئی وہ بھی ہیں جن پر گھر کی ذمہ داریاں تھیں۔‘
