جنوبی افریقہ کے ساتھ پہلا ون ڈے بہت دلچسپ اور ڈرامائی نشیب وفراز والا رہا۔
ایک اچھی تھرلنگ فلم کی طرح اس میں کئی ٹوئسٹ آئے۔ آخری اوور میں پاکستان اگرچہ جیت گیا، مگر مختصر ڈرامے کے ساتھ۔ پاکستان کی کامیابی کا ایک بڑا سیکرٹ متحد اوریکجا ٹیم کی طرح کھیل پیش کرنا تھا۔
پاکستان کی طرف سے بیٹنگ میں پہلے فخر زمان اور صائم ایوب نے ستاسی رنز کا اچھا تیز سٹارٹ دیا، دونوں نے چھکے بھی لگائے، سیٹ لگ رہے تھے، مگر اچانک وکٹیں گنوا دیں۔ کنگ بابر سے امیدیں تھیں، مگر وہ آج ناکام ہو گیا، صرف سات رنز بنائے ۔ ایک اور ایل بی ڈبلیو بابر کے مقدر میں تھا۔
تاہم پاکستانی ٹیم شائد بابر کے جلد آوٹ ہوجانے کی عادی ہو چکی ، اس لیے زیادہ فرق نہیں پڑا۔ سلمان آغا اور رضوان نے بڑی اچھی لمبی پارٹنر شپ بنائی۔
محمد رضوان آوٹ ہوگیا، مگر آغا اور طلعت حسین جم گئے،ایک اور مفید پارٹنر شپ بنا کر پوزیشن مضبوط کر دی تھی۔ اچانک سیٹ حسین طلعت نگیڈی کی سلو بال پر وکٹ گنوا بیٹھا۔ پھر حسن نواز نے غیرذمہ داری سے وکٹ ضائع کر دی۔ سلمان آغا جو فتح کے قریب لے آئے تھے، وہ بھی آوٹ ہوگئے ۔میچ کچھ پھنس گیا تھا۔
پھر نواز نے پریشر میں سکینڈ لاسٹ اوور کی آخری گیند پر چھکا لگا کر میچ کلیئر کر دیا۔ آخری چھ گیندوں پر چار رنز چاہیے تھے، شاہین نے دو گیندوں پر تین رنز بنا کر میچ برابر کر دیا۔ ایک آسان فتح سامنے تھی، مگر ایک اور ٹوئسٹ آیا اور نواز آؤٹ ہوگئے۔ خیر کسی نہ کسی طرح اگلی گیند پر لیگ بائی کا سنگل بنا اور پاکستان دو وکٹوں سے جیت گیا۔ جنوبی افریقہ نے اپیل کی، مگر ان کے پاس ریویو ہی نہیں بچا تھا، ویسے بھی گیند لیگ سٹمپ سے باہر تھی۔
آج کے میچ میں دونوں اوپنرز اچھا کھیلے۔ صائم ایوب کی آل راونڈ کارکردگی رہی، انہوں نے اچھی بولنگ کرائی اور دو اہم بڑی وکٹیں بھی لیں۔ فخرزمان کو نجانے کیوں ٹی20 سیریز میں باہر بٹھا دیا گیا، مگر وہ اچھے ٹچ میں تھے، اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کھیلے، اگرچہ انہوں نے بعد میں وکٹ تھرو ہی کی، ورنہ آرام سے نصف سنچری بنا سکتے تھے۔
محمد رضوان اور سلمان آغا کی بیٹنگ کی تعریف بنتی ہے۔ دونوں نے کلاسیکل ون ڈے اننگز کھیلیں۔ سنگلز، ڈبلز لے کر سٹرائیک مسلسل روٹیٹ کیا اور پھر ضرورت پڑنے پر چوکے بھی لگائے۔ محمد رضوان سے ون ڈے کی کپتانی لے لی گئی ہے، وہ یقیناً دلبرداشتہ ہوں گے، مگر ایک فائٹر کھلاڑی کے طور پر رضوان نے اچھی اننگ کھیل کر اپنی کلاس شو کی، ٹیم میں پوزیشن مستحکم کر لی۔
مرد میدان سلمان علی آغا تھے۔ آغا نے شاندار اننگ کھیلی، نہایت ذمہ دارانہ انداز وہ میچ کو فتح کے قریب لے آئے، اگرچہ جس شاٹ پر وہ آؤٹ ہوئے، اس کی ضرورت نہیں تھی، لنگی نگیڈی کو ایک اچھا چوکا انہوں نے لگا دیا تھا، اگلی گیند پر اونچا شاٹ لگانے کی ضرورت نہیں تھی، تاہم سلمان آغا نے اکہتر گیندوں پر باسٹھ رنز بنائے اور ٹیم کو مشکل سے نکال کر اینڈ تک لے آئے۔
پہلے رضوان کے ساتھ اور پھر حسین طلعت کے ساتھ اچھی پارٹنرشپس بنائیں، طلعت کے آؤٹ ہونے کے بعد بھی وہ کھڑے رہے، پریشر کم کیے رکھا۔ آغا اگر کھڑا رہتا تو شائد میچ آخری اوور میں نہ جاتا، مگر بہرحال اس کا کنٹری بیوشن بہت اہم رہا۔
پاکستان نے اگرچہ جنوبی افریقہ کو بڑے مارجن سے نہیں ہرایا، میچ کلوز گیا ، لوئر مڈل آرڈر نے غلطیاں کیں، آخری اوورز میں تیزی سے وکٹیں گریں ، مگر یہ بہرحال ماننا پڑے گا کہ پاکستانی ٹیم نے خاصی میچورٹی کا مظاہرہ کیا۔ کئی کھلاڑیوں نے ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کیا اور یوں ایک اہم میچ جیت کر سیریز میں برتری حاصل کر لی۔
اس میچ میں کئی کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ پاکستانی بولرز نے کمال کر دیا اور ایک بڑے سکور کی طرف بڑھتی جنوبی افریقہ کی ٹیم کو آخری پندرہ اوور میں صرف چونسٹھ رنز بنانے دیے۔ یہ حیران کن تھا۔ اس میں سپنرز کا بھی کردار ہے، ابرار نے اہم مواقع پر وکٹیں لیں۔ابرار نے چوالیسواں اوور میڈن کرایا اور اس میں دو وکٹیں لیں۔ محمد نواز نے دو آوٹ کیے۔ کپتان شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ نے آخری تین اوورز میں بہت عمدہ بولنگ کی اور جنوبی افریقہ دو سو تریسٹھ رنز بنا پایا، ورنہ ایک وقت میں تین سو کا ہدف لگ رہا تھا۔اگرچہ اس میں بھی کوربن بوش کی مفید اکتالیس رنز کی اننگز کا دخل ہے، ورنہ جنوبی افریقہ ممکن ہے پندرہ بیس رنز قبل آؤٹ ہوجاتا۔
آج کے میچ میں بھی پاکستان پانچ سپیشلسٹ بولرز کے ساتھ نہیں کھیلا۔ شاہین، نسیم شاہ اور ابرار تین مین بولرز تھے، چوتھے محمد نواز جبکہ پانچویں بولر کے لیے صائم ایوب اور سلمان آغا پر تکیہ کیا تھا۔ یہ ایک کمزور لنک تھا جو کسی بھی دن ٹیم کے لیے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ صائم ایوب نے آج اچھی بولنگ کرائی، مگر بہرحال وہ دس اوورز کے لیے زیادہ قابل اعتماد اور تجربہ کار بولر نہیں۔ اسی طرح محمد نواز نے آج اچھی بولنگ کرائی، مگر نواز کھبے بلے بازوں سے کبھی بری طرح پٹ جاتے ہیں۔ تب پاکستانی بولنگ ایکسپوز ہوجاتی۔ حسین طلعت کو بطور آل راونڈر کھلایا گیا، مگر شاہین شاہ نے ان سے ایک اوور بھی نہیں کرایا۔
حسین طلعت نے اگرچہ ذمہ دارنہ بیٹنگ کی، مگر بہرحال ساتویں نمبر پر ایک آل راؤنڈر درکار ہے جو کم از کم پانچ چھ اچھے اوورز کرا سکے، فہیم اشرف اس حوالے سے ایک اچھی آپشن ہیں، مگر شائد حسین طلعت بیٹنگ میں ان سے تجربہ کار ہیں۔ بہرحال یہ ایک کمزور لنک ہے، اس کا جلد کوئی اچھا حل تلاش کرنا ہوگا۔
حسن نواز نے آج پھر مایوس کیا۔ یہ نوجوان بلے باز ٹیلنٹیڈ ہےمگر اسے ابھی تک سیچوئشن کے حساب سے بیٹنگ کرنا نہیں آیا۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھی حسن نواز نے مسلسل مایوس کیا اور اپنی وکٹ تھرو کی۔ آج بھی حسن نواز کو اندھا دھند باہر نکل کر بلاگھمانے اور سٹمپ ہونے کے بجائے سمپلی سنگلز لینے چاہیے تھے، میچ کی سیچوئش چھکے ، چوکے کی متقاضی ہی نہیں تھے۔ گیند سپن ہو رہا تھا اور ایسے میں اتنا باہر نکل کر گھمانا خطرناک تھا اور وہی ہوا۔ مڈل آرڈر میں پاور ہٹر کے طور پر پوزیشن اہم ہے، حسن نواز ناکام ہو رہا ہے تو پھر عبدالصمد کو موقع دینا پڑے گا۔
اس ون ڈے میچ میں نئے ون ڈے قوانین کے مطابق چونتیس اوورز کےبعد ایک ہی گیند استعمال ہوا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ پچاس اوورز میں دونوں اینڈ سے الگ الگ گیند استعمال ہوتا، یوں پچاس اوورز ختم ہونے پر ہر گیند سے پچیس اوور کرائے جاتے۔ نئے قوانین کے مطابق چونتیس اوورز تک دونوں اینڈ سے الگ الگ گیند استعمال ہوں گے اور پھر فیلڈنگ سائڈ کی مرضی سے دونوں پرانی گیندوں میں سے ایک گیند کا انتخاب کر کے بقیہ سولہ اوورز اسی سے کرائے جائیں گے، یعنی اس گیند سے ٹوٹل تینتیس اوور ہوں گے۔ اس سے دو فائدے بولرز کو ملیں گے، فاسٹ بولرز پرانی گیند سے اچھی ریورس سوئنگ کرا سکیں گے جبکہ سپنرز کو بھی مدد ملے گی اور یہ بھی کہ آخری اوورز میں بڑی شاٹس شائد آسانی سے نہ لگ سکیں۔
یہ سب چیزیں آج نظر آئیں۔ آخری دس اوورز میں کم رنز بنے۔ فاسٹ بولرز ریورس سوئنگ بھی کرا رہے تھے، یارکر بھی اچھے لگ رہے تھے، شاہین شاہ نے ایک اوور میں تین چار مسلسل یارکرز کرائے۔ سپنرز کو بھی مدد ملی اور ڈیتھ اوورز میں دونوں اطراف سے سپنرز نے بھی بولنگ کرائی۔ پاکستان کی طرف سے نواز اور ابرار جبکہ جنوبی افریقہ کے بھی تینوں سپنرز ڈیتھ اوورز میں ایک طرف سے بولنگ کراتے رہے۔ بلے بازوں کو یہ نئی چیزیں سمجھنا اور سیکھنا ہوں گی۔ سلوبالز آج خاصی کرائی گئیں، سلوکٹرز بھی ۔ ون ڈے کرکٹ میں یہ نئی تبدیلی ہے، جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہوسکتی ہے کہ ہمارے فاسٹ بولرز ریورس سوئنگ کے اچھے ماہر سمجھے جاتےہیں۔
سیریز کا پہلا ون ڈے فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں ہوا۔ سترہ برس کے بعد یہاں انٹرنیشنل ون ڈے میچ ہوا۔ بہت خوش آئند ہے۔ کراؤڈ آیا اور انہوں نے خوب انجوائے کیا۔ شاہین شاہ آفریدی کو ون ڈے کا کپتان بنایا گیا، یہ پہلا امتحان تھا ، وہ اس میں سرخرو ہوئے۔ اگلا ون ڈے دو دن بعد اسی جگہ پر ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ پاکستان وہ جیت کر ٹی20 کی طرح ون ڈے سیریز بھی جیت لے گا۔