پاکستان انڈیا فائنل میچ کو اگر چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ بنتے ہیں: ’ناقص بیٹنگ، بدترین مڈل آرڈر، کمزور کپتانی اور ناقابل اعتبار حارث رؤف پاکستانی ٹیم کو ڈبو گئے۔‘
صاحبزادہ فرحان، (کسی حد تک) فخر زمان، شاہین شاہ آفریدی، فہیم اشرف اور ابرار نے میچ جتوانے کی پوری کوشش کی، مگر یہ بوجھ ان کی استطاعت سے زیادہ تھا۔ باقی ٹیم ساتھ نہ دے پائی اور یوں فائنل جیتنے کا سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
ایشیا کپ کے فائنل سے پہلے ہی ہر ایک کو اندازہ تھا کہ پاکستان بمقابلہ انڈیا میچ میں موجودہ انڈین ٹیم فیورٹ ہے، کیونکہ وہ زیادہ مضبوط، بیلنس اور اِن فارم ہے، جبکہ پاکستانی ٹیم کی کئی بنیادی کمزوریاں اس ٹورنامنٹ میں ایکسپوزہو چکی تھیں۔ اعداد و شمار کے مطابق انڈین ٹیم پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ البتہ یہ امید تھی کہ پاکستان کی ٹیم میں چند ایک میچ ونر کھلاڑی موجود ہیں، صاحبزادہ فرحان، فخر زمان، شاہین شاہ آفریدی، ابرار احمد وغیرہ۔ یہ کھلاڑی اگر کلک کر جائیں تو شائد پاکستانی ٹیم کرشمہ دکھا جائے۔ یہ چار پانچ کھلاڑی اچھا کھیلے، مگر کرشمہ نہ ہو پایا کیونکہ انڈیا جیسی ٹیم کو ہرانے کے لیے پوری ٹیم کو بہت اچھا کھیلنے کی ضرورت تھی۔ ایسا نہ ہوا۔ پاکستانی ٹیم کی جو کمزوریاں پورے ٹورنامنٹ میں چلتی رہیں، فائنل میں وہی لے ڈوبیں۔ پاکستان کو ایک ٹورنامنٹ میں مسلسل تیسری بار اپنے روایتی حریف سے شکست ہوئی۔
مزید پڑھیں
فائنل میچ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پاکستان نے پاور پلے میں اچھی بولنگ کی، انڈیا سے بہت بہتر۔ اور بیٹنگ میں بھی پاور پلے میں اچھا کھیلا۔ ایک بہت اچھا اور تیز اوپننگ سٹارٹ ملا۔ صاحبزادہ فرحان نے آج کمال ہی کر دیا۔ فرحان نے پاور پلے میں بھی عمدہ شاٹس کھیلے، بمراہ کو چھکا اور چوکے لگائے۔ وہ بمراہ کو مجموعی طور پر تین چھکے لگانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بن گئے ہیں۔ فرحان نے کلدیپ اور اکثر پٹیل کو بھی چھکے لگائے۔ صاحبزادہ فرحان نے 150 کے متاثر کن سٹرائیک ریٹ سے 38 گیندوں پر 57 رنز بنائے، جن میں تین چھکے شامل تھے۔ ان کی جارحانہ بیٹنگ نے پاکستانی شائقین کو لطف اندوز کیا، تھوڑا بہت فخر زمان نے بھی کیا، مگر وہ سیٹ ہونے کے بعد بھی لمبی اننگز نہ کھیل سکے۔
اس کے بعد جیسا کہ خطرہ تھا پاکستانی مڈل آرڈر ایک بار پھر دھوکا دے گیا۔ ایک وقت میں 180 یا 190 رنز بنتے نظر آ رہے تھے اور پھر 150 بھی نہ ہو پائے۔ پاکستان نے یقینی طور پر 30 رنز کم بنائے۔ اگر 146 کے بجائے 176 رنز بنائے ہوتے تو میچ کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔ افسوس کہ پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ پورے ایشیا کپ میں ڈگمگاتی رہی۔ کسی بھی میچ میں یہ کلک نہ کر سکے۔
صائم ایوب پورے ایشیا کپ میں بری طرح ناکام رہے۔ چار بار صفر پر آوٹ ہوئے۔ فائنل میں بھی صائم کچھ گیندیں کھیل کر سیٹ ہو گئے تھے، لیکن پھر اپنی وکٹ تھرو کر ڈالی۔ محمد حارث کو آج چوتھے نمبر پر بھیجا گیا۔ یہ فیصلہ ناقابل فہم تھا کیونکہ تب دونوں طرف سے لیفٹ آرم سپنر لگے تھے اور وہاں پر کسی لیفٹ ہینڈڈ بلے باز کو آنا چاہیے تھا، بہتر ہوتا کہ محمد نواز کو بھیجا جاتا جو گذشتہ دو تین میچز سے اچھا کھیل رہے ہیں، یا پھر شاہین شاہ آفریدی کو بھیجنے کا چانس لینا چاہیے تھا کہ اگر ان کی دو تین اچھی شاٹس لگ جاتیں تو مومینٹم پاکستان کے حق میں رہتا۔

کپتان سلمان آغا پورے ٹورنامنٹ میں لرزتے، ڈگمگاتے ہی رہے۔ فائنل میں بھی وہ ناکام رہے۔ سلمان آغا کی بیٹنگ کی طرح ان کی کپتانی بھی ناقص رہی۔ بیٹنگ آرڈر میں انہوں نے غلط فیصلے کیے۔ ایک بہت اچھے مومینٹم کو ضائع کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی وکٹ بھی تھرو کر بیٹھے۔ اگر انہوں نے یا حسین طلعت نے آ کر اندھا دھند ہٹنگ ہی کرنی تھی تو زیادہ بہتر یہ نہیں تھا کہ وہاں پر اپنے سے بہتر ہٹرز کو موقع دیتے۔ شاہین کو بھیجتے، نواز یا فہیم کو موقعہ دیتے جو مسلسل کئی میچز سے چھکے لگاتے آ رہے ہیں۔
پاکستانی بیٹنگ 12 اوورز تک اچھا کھیلی، فرحان آوٹ ہو چکا تھے، مگر 107 رنز پر ایک آوٹ تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگلے آٹھ اوورز میں 80 90 رنز بن سکتے ہیں۔ آٹھ کے اوسط سے رنز بنائیں تب بھی 180 رنز یقینی نظر آ رہے تھے۔ اگلے تین اوورز میں پاکستان کی مسلسل وکٹیں گریں۔ صائم آؤٹ ہوا، فخر گیا، حسین طلعت اور پھر وہ 17 واں اوور آیا جس نے ٹیم کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ فائنل میں کلدیپ یادو کو پاکستانی اوپنرز اچھا کھیلے۔ تین اوورز میں انہوں نے 29 رنز دیے تھے، ناکام نظر آ رہے تھے۔ ان کے آخری اوور میں صرف ایک رنز بنا اور تین وکٹیں گر گئیں۔ لیٹ مڈل آرڈر کا صفایا ہو گیا۔ پہلے سلمان آغا ایک عجیب وغریب شاٹ کھیلتے آؤٹ ہو گئے، پھر شاہین شاہ نے وکٹ گنوائی اور آخری گیند پر فہیم اشرف نے سوچے سمجھے بغیر ایک اونچا شاٹ کھیل ڈالا۔ وہ دیکھ رہا تھے کہ اسی اوور میں دو وکٹیں گر چکی ہیں، اس کے بعد تین اوورز رہتے ہیں اور وہ فاسٹ بولرز ہی کرائیں گے جنہیں فہیم اشرف پورے ٹورنامنٹ میں اچھا کھیلتے آئے ہیں۔ سینس لیس کرکٹ مگر اسی کو کہتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر اپنی وکٹ گنوا دو۔
ٹارگٹ چھوٹا تھا اور انڈین بیٹنگ لائن ضرورت سے زیادہ لمبی۔ آج انہوں نے ہاردک پانڈیا کی جگہ کوئی اور بولر کھلانے کی بجائے ایک اضافی بلے باز رنکو سنگھ کو کھلایا۔ لگ رہا تھا کہ میچ یکطرفہ ہوجائے گا۔ تاہم پاکستانی بولنگ نے ابتدا ہی میں کمال کر دکھایا۔ شاہین شاہ آفریدی نے آج بڑی عمدہ اور سمجھداری سے باولنگ کرائی۔ پہلے اوور میں انہوں نے ابھیشک شرما کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا، اسی وجہ سے اگلے اوورکی پہلی ہی گیند پر ابھیشک شرما نے فہیم اشرف کو وکٹ دے دی۔ پھر شاہین شاہ نے اگلے اوور میں سوریا کمار یادو کو آوٹ کر دیا، سلمان آغا نے بڑا اچھا کیچ کیا۔ فہیم اشرف کی سلو بال کام کر گئی اور شبمن گل بھی آوٹ ہو گئے۔ چھ اوورز کے پاور پلے میں صرف 36 رنز بنے اور تین وکٹیں گر گئیں۔ بہت اچھا سٹارٹ ملا۔
اس کے بعد سپنرز نے بھی اچھی باولنگ کرائی۔ ابرار متاثر کن رہا۔ ان کی گیند پر حسین طلعت نے سنجو سمیسن کا آسان کیچ چھوڑ دیا۔ تاہم پھر بھی پاکستان کے کنٹرول میں معاملہ رہا۔ نواز نے ایک اوور کرایا اور صائم ایوب نے بھی اچھی بولنگ کرائی اور رنز روکے رکھے۔ ابرار نے پھر سیمسن کو بڑی ہوشیاری سے آوٹ کیا۔ ایک اچھی گیند پر یہ وکٹ ملی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اب میچ پاکستان کی طرف پلٹ آیا۔
14 اوورز میں انڈیا کے 83 رنز تھے، چار آوٹ۔ انہیں چھ اوورز میں 64 رنز بنانے تھے جو اب مشکل ہدف بنتا جا رہا تھا۔ وہاں پر کپتان سلمان آغا کو چاہیے تھا کہ ابرار کو اوور کرانے دیتے۔ اگر ابرار ایک وکٹ لے لیتا یا رنز بدستور روکے رکھتا تو دباو مزید بڑھ جانا تھا۔ وہاں پر حارث رؤف کو اوور دے دیا گیا۔ حارث کی پٹائی ہوئی، 17 رنز بن گئے اور میچ اچانک پاکستان کے ہاتھ سے سلپ ہو گیا۔ پھر ابرار کو اوور دینے کا فائدہ نہ ہوا، شیوم دوبے نے ابرار کو بھی چھکا جڑ دیا۔ شاہین شاہ سے بولنگ کرائی گئی، فہیم اشرف کو 19 واں اوور دیا گیا، مگر یہ سب بیکار ثابت ہوا۔ حارث رؤف کی بدترین بولنگ نے کوئی موقع چھوڑا ہی نہیں۔ انہوں نے 18 ویں اوور میں بھی 13 رنز دیے اور پھر آخری اوور میں 10 رنز کا دفاع کرنا تھا، مگر اس میں بھی چار گیندوں پر 13 رنز دے دیے۔ حارث رؤف نے اپنے چار اوورز کے کوٹے میں 50رنز دیے۔ یہ بدترین بولنگ تھی۔ پاکستانی شائقین کو کوہلی کے ہاتھوں حارث روف کی پٹائی یاد آ گئی، وہ میچ بھی پاکستان حارث کی وجہ سے ہارا تھا۔ آج اگر وہ فہیم اشرف جیسی بولنگ بھی کرا جاتے تو میچ جیتا جا سکتا تھا، یا آخری گیند پر چلا جاتا۔ فہیم اشرف نے چار اوورز میں 29 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔
کپتان سلمان آغا نے بیٹنگ آرڈر میں غلطیاں کیں۔ بولنگ میں حارث رؤف کو غلط وقت پر لگایا، انہیں ابرار سے اوور کرانا چاہیے تھا اور پھر صائم ایوب سے چوتھا اوور کرایا جاتا۔ اس وکٹ پر فاسٹ بولرز زیادہ کامیاب نہیں ہوئے، سپنرز کو زیادہ مدد مل رہی تھی۔ صائم ایوب نے تین اوورز میں صرف 16 رنز دیے، ان سے چوتھا اوور بھی کرانا چاہیے تھا۔ محمد نواز سے بھی ایک اوور مزید کرایا جا سکتا تھا، انہوں نے پہلے اوور میں صرف چھ رنز دیے تھے۔
پاکستان پانچ وکٹوں سے یہ میچ ہار گیا۔ ایشیا کپ میں انڈیا سے تین میچ کھیلے گئے۔ پہلا میچ یکطرفہ ثابت ہوا، دوسرے میں کچھ بہتر کھیلے، اس تیسرے میچ میں پاکستان نے کم رنز بنانے کے باوجود فائٹ اچھی کی۔ ایک وقت میں لگ رہا تھا کہ میچ جیتا جا سکتا ہے، پھر ٹیم کی کمزوریاں آڑے آئیں۔ فیلڈنگ میں بھی ایک آسان کیچ چھوڑا، دو رن آوٹ چانس مس کیے، خاص کر وکٹ کیپر حارث نے جو تلک ورما کا رن آؤٹ مس کیا، وہ بہت ہی مہنگا پڑا۔ اینڈ آف دا ڈے پاکستانی ٹیم لوزر ہی ثابت ہوئی۔ پاکستانی شائقین کو شدید مایوسی ہوئی۔ انڈین شائقین کو خوش ہونے کا موقع ملا۔
پاکستان نے اگلے چند ماہ میں اچھی خاصی کرکٹ کھیلنا ہے۔ جنوبی افریقہ، سری لنکا اور دیگر ٹیموں کے خلاف سیریز ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ٹیم کے اندر موجود بنیادی نوعیت کی خامیوں کو دور کیا جائے۔ ناکام کھلاڑیوں کو آخر کتنے مزید چانسز دئیے جائیں گے؟ ناقابل اعتبار اور بڑے میچ میں صفر ہوجانے والے سپر سٹارز سے بھی جان چھڑائی جائے۔ ورنہ پاکستانی ٹیم ہمیشہ ہر اہم موقع پر، ہر اچھی ٹیم کے خلاف یوں ہی مایوس کرتی رہے گی۔
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، مگر ٹیم کو کم از کم بیلنس اور مضبوط تو ہونا چاہیے۔ بنیادی اصولوں کے مطابق اچھے سٹینڈرڈ کھیل کا مظاہرہ تو کیا جائے، تب عوام اور شائقین کرکٹ ہار بھی قبول کر لیتے ہیں۔