سپریم کورٹ کے ججز کے استعفے، اس کے اعلٰی عدلیہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جمعرات 13 نومبر 2025 18:18
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
پاکستان کی پارلیمان سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور صدرِ مملکت کی توثیق کے فوراً بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو ججوں نے استعفے دے دیے ہیں۔
ان دو ججوں میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں، جنہوں نے جمعرات کو اپنے عہدوں سے استعفے صدرِ مملکت کو ارسال کیے۔
دونوں ججوں نے اپنے استعفوں کی بنیادی وجوہات 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم کو قرار دیا ہے۔
’عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا گیا ہے‘
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ ’27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر ایک سنگین حملہ ہے، جس نے آئین پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔‘
’عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا گیا ہے اور ہماری آئینی جمہوریت کی رُوح پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ملک کی واحد اعلٰی ترین عدالت کو منقسم اور عدلیہ کی آزادی کو پامال کر کے پاکستان کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس عہدے سے وابستہ رہنا نہ صرف ایک آئینی دراندازی پر خاموش رضامندی ہوتی، بلکہ ایسی عدالت میں بیٹھے رہنے کے مترادف ہوتا جس کی آئینی آواز مکمل طور پر دبا دی گئی ہے۔‘
’26ویں آئینی ترمیم کے برعکس، جب سپریم کورٹ کے پاس ترمیم کی آئینی جانچ کا اختیار موجود تھا، 27ویں آئینی ترمیم اس اختیار کو بھی ختم کر چکی ہے۔‘
’نئے ڈھانچے کی بنیاد اس آئین کی قبر پر رکھی جا رہی ہے‘
دوسری جانب سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں موقف اپنایا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے، میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس مجوزہ ترمیم کے حوالے سے اپنے خدشات ظاہر کیے تھے کہ یہ ہمارے آئینی ڈھانچے پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔ اُس خط کے تفصیلی مندرجات دہرانے کی ضرورت نہیں، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ جن خدشات کا اظہار اُس وقت کیا گیا تھا، آج وہ سب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ میرے لیے یہ سب سے بڑا اعزاز اور فخر کی بات رہی ہے کہ میں پاکستان کے عوام کی خدمت عدلیہ کے رکن کے طور پر کر سکا۔ میں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ اپنے حلف کے مطابق فرائض انجام دینے کی کوشش کی۔ مگر آج یہی وہ حلف ہے جو مجھے اپنے عہدے سے باضابطہ استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’جس آئین کا میں نے دفاع اور پاسداری کا حلف اٹھایا تھا، وہ اب باقی نہیں رہا۔ جتنا بھی میں خود کو قائل کرنے کی کوشش کروں، حقیقت یہی ہے کہ اب نئے ڈھانچے کی بنیاد اس آئین کی قبر پر رکھی جا رہی ہے۔ جو کچھ باقی بچا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے جس میں نہ اس کی روح باقی ہے، نہ وہ عوام کی آواز سناتا ہے۔‘
ان استعفوں کے حوالے سے سینیئر وکلا اور تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ دونوں ججوں کے استعفے کافی حد تک متوقع تھے، کیونکہ انہیں 26ویں ترمیم پر ہی تحفظات تھے اور اب 27ویں ترمیم آنے کے بعد آج نہیں تو کل ان کے استعفے سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
’انہیں اندر سے کوئی حمایت نہیں ملی‘
اسلام آباد بار کونسل کے رکن اور سینیئر وکیل ایڈوکیٹ ریاست علی آزاد نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے یہ کوشش کی کہ وہ عدلیہ کے اندر ہی آئینی ترامیم کے خلاف آواز اٹھائیں، لیکن جب انہیں اندر سے کوئی حمایت نہیں ملی تو بظاہر انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ شاید اب اور استعفے بھی آئیں اور ان ترامیم کے خلاف ججز یا وکلا کی کوئی تحریک بھی چل پڑے۔‘
ایڈوکیٹ ریاست علی آزاد نے مزید کہا کہ ان دو استعفوں کے بعد پاکستان بھر میں، اور شاید بین الاقوامی سطح پر بھی، گفتگو ہو گی کہ آخر پاکستان میں 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم کیا ہیں اور ججز استعفیے کیوں دے رہے ہیں؟
’استعفوں کی ذمہ داری موجودہ عدلیہ پر بھی عائد ہوتی ہے‘
سپریم کورٹ کور کرنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار حسنات ملک نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور منصور علی شاہ کے بارے میں یہ بات سامنے آ رہی تھی کہ اگر وہ سسٹم کے اندر ہی رہتے ہیں تو شاید وہ موجودہ حالات کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔
’دونوں ججز سمجھتے تھے کہ ان کے پاس دو راستے ہیں: یا تو وہ بیٹھے رہیں یا باہر آئیں۔ اب انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے، اور اگر وہ باہر آتے ہیں اور کسی بار میں انہیں بلایا جاتا ہے، وہاں خطاب کرتے ہیں، تو پھر اس کا عدلیہ کے حوالے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان دونوں ججوں کے استعفوں کی ایک ذمہ داری موجودہ عدلیہ پر بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ ان دونوں ججوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں تاخیر کے معاملے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، اور اگر 26ویں ترمیم پر فیصلہ سامنے آ جاتا تو شاید یہ نتائج نہ آتے۔ ان ججوں نے 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کے حوالے سے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ رکھے تھے۔‘
’اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے استعفے متوقع تھے، اور اگر باہر سے کسی جج کو مسئلہ ہو تو وہ پھر اس کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن ان دونوں ججوں کے لیے عدلیہ کے اندر سے بہت سارے مسائل تھے جن کا بظاہر ان کے پاس کوئی اور حل نہیں تھا۔‘
