وادی کیلاش کے سرسبز پہاڑوں میں قیمتی پتھروں کی تلاش کے دوران تین ماہ پہلے لاپتہ ہونے والے تین افراد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ افغان جیل میں قید ہیں۔
ابتدا میں خیال تھا کہ وہ جنگل میں گم ہو گئے ہیں، مگر بعد میں مقامی افراد کے مطابق انھیں معلوم ہوا کہ وہ قیمتی پتھروں کی تلاش میں سرحد پار کر گئے تھے جہاں افغان سکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا اور افغانستان کے صوبہ نورستان میں قید ہیں۔
سرحدی گاؤں شیخاندہ کے ان تین چرواہوں کی رہائی کا معاملہ پاکستان کے ایوانِ بالا میں بھی اٹھایا گیا ہے۔
رمبور وادی کی ویلیج کونسل شیخاندہ گاؤں کے سابق ناظم عبدالمجید نے بتایا کہ ’پاک افغان بارڈر کے قریب بسنے والوں کی آپس میں رشتے داریاں ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی طرف آتے جاتے رہتے ہیں، خاندان کے افراد کا آپس میں میل ملاپ ہوتا رہتا ہے تو اس روز بھی ان کے ایک افغان رشتے دار شیخاندہ آئے ہوئے تھے جو انہیں ساتھ نورستان لے گئے۔‘
مزید پڑھیں
-
وانا کیڈٹ کالج پر حملے میں افغانستان کے لوگ ملوث تھے: شہباز شریفNode ID: 897133
سابق ناظم عبدالمجید کے مطابق افغان نوجوان سمیت تینوں پاکستانی چرواہے اس وقت افغان سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں جس کی تصدیق نورستان کے مقامی لوگوں نے کی ہے۔
نورستان کے مقامی لوگوں نے شیخاندہ کے لوگوں کو بذریعہ فون اطلاع دی کہ پاکستانی بارڈر سے آنے والے افراد کو گرفتار کرکے جیل بھجوا دیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق چرواہوں کے ساتھ ایک اور نوجوان بھی موجود ہے جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی گرفتار ہے تاہم اس کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوئی۔
چرواہے قیمتی پتھروں کی تلاش میں نکلے تھے

وادی کیلاش کے گاؤں کے رہائشی محمد حنیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شیخاندہ کے سرحدی علاقے میں معدنیات کے ذخائر موجود ہیں اور یہ بات عام ہے کہ وہاں قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں اسی لیے یہ چرواہے بھی پتھروں کی تلاش میں جنگل میں بھٹک گئے اور یوں افغان فورسز نے ان کو حراست میں لے لیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’چرواہوں کو کسی نے بتایا ہوا تھا کہ بارڈر کے پاس قیمتی پتھر نکالے جا سکتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے، ان مائنز تک پہنچنا اور انہیں نکالنا بہت مشکل کام ہے۔‘
مقامی شہری محمد حنیف نے بتایا کہ ’بارڈر کے دونوں جانب رشتہ داریاں ہیں ایک دوسرے سے ملنا ملانا عام سی بات ہے مگر موجودہ صورتِ حال میں بارڈر عبور کرنا ایک سنگین جرم ہے اس لیے چرواہوں کے لیے مصیبت کھڑی ہوگئی ہے۔‘
شیخاندہ کے ایک اور رہائشی نواب خان نے بتایا کہ ’چرواہے کم عمر اور ناسمجھ ہیں، وہ غلطی سے بارڈر پر گئے۔ وہ نہ مسلح تھے اور نہ ان کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا تھا۔ افغان حکام کو جذبہ خیر سگالی کے تحت ان نوجوانوں کو رہا کردینا چاہیے تاکہ ان کے گھر والوں کی پریشانی ختم ہو سکے۔‘
ایوانِ بالا میں کی بازیابی پر بات












