Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم اور اس کے ممکنہ اثرات، عامر خاکوانی کا کالم

مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد حکمران اتحاد کی مشکل آسان ہو گئی ہے (فوٹو: اے پی پی)
27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تمام مباحث اب اختتام کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے مجوزہ آئینی ترمیم کا پورا ڈرافٹ منظور کرتے ہوئے شق وار 49 ترامیم کی منظوری دے دی۔ یوں اب اگلا مرحلہ صرف ووٹنگ کا رہ گیا ہے جو اس وقت حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔
پچھلے سال ہونے والی 26ویں ترمیم کے موقعے پر مشکل تھی کہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اسی وجہ سے تب مولانا فضل الرحمان کے ووٹ اہمیت اختیار کر گئے تھے اور انہیں ساتھ ملانا پڑا تھا۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد حکمران اتحاد کی مشکل آسان ہو گئی ہے۔
اس وقت بتایا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان درکار ہیں مگر ان کے پاس 237 ووٹ موجود ہیں۔ جبکہ سینیٹ میں دوتہائی اکثریت کے لیے 64 ارکان کی ضرورت پڑے گی جبکہ حکمران اتحاد یعنی ن لیگ پلس پی پی پی، ایم کیو ایم، ق لیگ، باپ، نیشنل پارٹی، اے این پی وغیرہ کی صورت میں 65 ووٹ موجود ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اس آئینی ترمیم میں ہے کیا، اس کے مقاصد کیا ہیں اور آئین، سماج اور سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
آئینی ترمیم اور ایکٹ میں فرق
پہلے مختصراً یہ جان لیجیے کہ اگر پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے کوئی قانون پاس کرے تو اسے ایکٹ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت لازمی چاہیے ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی سے الگ دو تہائی اکثریت ہو، سینیٹ سے الگ دو تہائی اکثریت سے یہ منظور ہو تب آئینی ترمیم کہلاتی ہے۔ تاہم ایکٹ کے لیے مشترکہ اجلاس سے سادہ اکثریت سے منظوری ہی کافی ہے۔
27ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟
اس ترمیم میں بیشتر شقیں تکنیکی نوعیت کی ہیں اور یہ نئی فیڈرل آئینی کورٹ کے حوالے سے ہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم چار نکات پر مرکوز ہے۔

اس ترمیم کے منظور ہوتے ہی سپریم کورٹ کے اختیارات میں بڑی نمایاں کمی ہو جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)

1۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور عدالتی ڈھانچے کی نئی تشکیل
2۔  سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی اور منتقلی
3۔ ہائی کورٹس کے ججز کے تبادلے، ریٹائرمنٹ اور کنٹرول سے متعلق شقیں
4۔  آرٹیکل 243 میں ترمیم یعنی چیئرمین جوائنٹ چیفس کا خاتمہ اور فیلڈ مارشل وغیرہ کے مناصب
وفاقی آئینی عدالت کا قیام
27ویں آئینی ترمیم کا یہ بہت اہم حصہ ہے۔ اس ترمیم کے منظور ہوتے ہی سپریم کورٹ کے اختیارات میں بڑی نمایاں کمی ہوجائے گی اور تمام قسم کے آئینی معاملات یہی وفاقی آئینی عدالت ہی دیکھے گی۔
نئی فیڈرل آئینی عدالت آئین کی تشریح، بین الصوبائی تنازعات، بنیادی حقوق کے نفاذ، اور آئینی اپیلوں کا مکمل اختیار رکھے گی۔ موجودہ سپریم کورٹ اب ان امور میں دخیل نہیں ہو گی، اور اس کی حیثیت صرف فوجداری و دیوانی اپیلوں تک محدود ہو جائے گی، بالکل اسی طرح جیسے ڈسٹرکٹ یا سیشن عدالتیں اپنے دائرے میں کام کرتی ہیں۔ ممتاز قانون دان مخدوم علی خان کے الفاظ میں ’عملاً سپریم کورٹ ایک سپریم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ بن کر رہ جائے گی؟‘
فیڈرل آئینی عدالت کی تشکیل
صدر پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سے کسی ایک کو تین برس کے لیے چیف جسٹس فیڈرل آئینی عدالت مقرر کریں گے اور پھر وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف جسٹس فیڈرل آئینی عدالت کی مشاورت سے صدر دیگر جج صاحبان کا تقرر کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر صوبے سے ججوں کی مساوی تعداد ہو گی۔

فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی (فوٹو: اے پی پی)

سپریم کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائر جج، ہائی کورٹ میں سات سال سے زیادہ عرصہ تک کام کرنے والے جج اور 20 سال تک ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کی وکالت کرنے والے وکلاء میں سے فیڈرل آئینی عدالت کے جج لیے جا سکتے ہیں۔
فیڈرل آئینی عدالت کی تاریخ
آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ تجویز پہلی بار سامنے آئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ وفاقی حکومت کے اقدامات خصوصاً آرڈیننس اور صدارتی احکامات کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ اس وقت کی سپریم کورٹ اور وکلاء بار کونسلوں کی سخت مخالفت کے باعث یہ تجویز واپس لے لی گئی ۔ نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو نے ایک دو بار یہ تجویز پیش کی، وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے نالاں تھیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر یہ تجویز دی گئی۔ اب اس کا آئیڈیا پھر سے نمودار ہوا، مگر اس بار عملی جامہ پہنا لیا گیا۔
ویسے دنیا کے کئی ممالک میں فیڈرل آئینی عدالت موجود ہے۔ جرمنی، مصر وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ البتہ انڈیا میں سپریم کورٹ کے متوازی فیڈرل آئینی عدالت موجود نہیں، وہاں تجویز تو دی گئی تھی، مگر مخالفت کے باعث عمل نہیں ہوا۔
فیڈرل کورٹ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر
دلچسپ بات یہ ہے کہ فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی۔ یہ اس اعتبار سے حیران کن ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس ہے جبکہ ہائی کورٹ جج 62 برس کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر تین برس زیادہ کیوں رکھی گئی؟ اس کا کوئی منطقی جواب تو موجود نہیں۔

صدرِ مملکت اب ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کر سکیں گے (فوٹو: اے پی پی)

بہرحال یہ پنڈی اسلام آباد کے قانونی حلقوں میں گردش کرنے والی ایک گوسپ بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کو اس کی وضاحت تو کرنی چاہیے کہ آخر فیڈرل آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر سپریم کورٹ کے ججوں سے تین سال زیادہ کیوں رکھی جا رہی ہے؟
سپریم کورٹ کے اختیارات کی ازسرِنو ترتیب
سپریم کورٹ کے پاس ایک اہم اختیار کسی بھی عوامی مسئلے پر ازخود یا سوموٹو نوٹس لینے کا تھا یعنی آرٹیکل 184۔ اسے اب ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ آرٹیکل 185، 186، اور 189 میں بڑی ترامیم کر کے آئینی نوعیت کے تمام اختیارات وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ ملک کی عدالتی درجہ بندی میں طاقت کا مرکز سپریم کورٹ سے ہٹ کر نئی آئینی عدالت کی طرف شفٹ ہوگیا ہے۔ یوں وہ عدالت، جو ماضی میں آئینی معاملات کی آخری اتھارٹی سمجھی جاتی تھی، اب انتظامی لحاظ سے ایک درجے نیچے آ گئی ہے۔
ہائی کورٹس اور ججز کے انتظامی اختیارات میں تبدیلیاں
27ویں ترمیم کے تحت ججز کے تبادلے، تعیناتی اور ریٹائرمنٹ کے اختیارات وسیع پیمانے پر بدلے گئے ہیں۔
صدرِ مملکت اب ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کر سکیں گے۔ جو جج تبادلہ قبول نہ کرے، اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح کسی سپریم کورٹ کے جج کو اگر فیڈرل آئینی عدالت میں بھیجا گیا اور اس نے انکار کیا تو وہ بھی ریٹائر سمجھا جائے گا۔
یہ اس ترمیم کا سب سے متنازع اور خطرناک حصہ کہا جا رہا ہے۔ وکلاء اور قانونی ماہرین کو خدشہ ہے کہ حکومتیں اپنے کسی ناپسندیدہ جج کو ہٹانے کے لیے اس کے ٹرانسفر کا حربہ آزمائیں گی۔ پہلے ہائی کورٹ کے جج کا اس کی مرضی کے بغیر ٹرانسفر نہیں ہوسکتا تھا۔ اب نہ صرف ٹرانسفر ہوسکے گا بلکہ انکار پر فوری ریٹائرمنٹ ہوجائے گی۔

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بری فوج کے سربراہ کےساتھ ساتھ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ بھی سنبھالیں گے (فوٹو: آئی ایس پی آر)

یوں ٹرانسفر کی تلوار ہائی کورٹ کے ججوں کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ اندازہ کریں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جن ججوں سےحکومت کو شکایات ہیں، ان کا اگر فوری تبادلہ کوئٹہ کر دیا جائے تو ان کے لیے کیسی مشکل پیدا ہوجائے گی؟ قانونی حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے رہی سہی عدالتی آزادی بھی ختم ہو جائے گی۔
آرٹیکل 243 میں فیلڈ مارشل سے متعلق ترمیم
27ویں آئینی ترمیم کا ایک نمایاں پہلو فوجی ڈھانچے میں تبدیلی سے متعلق ہے۔ اس ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے، موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد لودھی کی 27 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے ساتھ یہ عہدہ ختم ہوجائے گا۔
اس کی جگہ چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا منصب قائم کیا گیا ہے۔ موجودہ آرمی چیف یعنی فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بری فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاک انڈیا مئی کی جنگ کے تناظر میں ایسا کیا گیا تاکہ اہم مواقع پر برق رفتاری کے ساتھ فیصلے ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی آئین میں ترمیم کر کے فیلڈ مارشل کے عہدے، مراعات وغیرہ کو تاحیات استحقاق اور آئینی استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ویسے دنیا بھر میں فیلڈ مارشل کے اعزاز کا استحقاق اور مراعات وغیرہ تاحیات رہتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بھی بتایا گیا ہے کہ بری فوج کے فیلڈ مارشل کی طرح پارلیمنٹ اور حکومت کسی ایئر چیف کو مارشل آف ایئر فورس اور کسی نیوی چیف کو ایڈمرل آف فلیٹ کے اعزاز سے نواز سکتی ہے، ایسی صورت میں یہ دونوں منصب بھی فیلڈ مارشل کی طرح تاحیات استحقاق رکھیں گے۔ یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ فیلڈ مارشل کے رینک کو کوئی وزیراعظم یا حکومت ختم نہیں کر سکتے۔ جس طرح صدر کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، اسی طرح فیلڈ مارشل کے عہدے کو ختم کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے ہو گی۔

 پیپلزپارٹی نے صوبوں کا حصہ کم کرنے کی تجویز کی شدید مخالفت کی (فوٹو: اے ایف پی)

کون سے نکات 27ویں ترمیم میں شامل نہیں ہو سکے؟
اس ترمیم کے حوالے سے پہلے جو چیزیں سامنے آئیں تھیں، ان میں سے ایک بہت اہم نکتہ نیشنل فنانس کمیشن کے دائرہ کار میں رد و بدل کا تھا۔57 فیصد کے لگ بھگ صوبے لے جاتے ہیں جبکہ باقی 42 فیصد کے قریب وفاق کو ملتا ہے۔ موجودہ اور ماضی کی وفاقی حکومتوں کا خیال ہے کہ یہ کم ہیں کیونکہ انہیں قرضوں کی ادائیگی میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں، دفاعی بجٹ، وفاقی ترقیاتی بجٹ، سول اور فوجی پینشن وغیرہ ان کے کھاتے میں ہیں جبکہ دیگر وزارتیں، سفارت خانے وغیرہ کی ذمہ داری بھی۔
اس لیے تجویز تھی کہ صوبوں کا حصہ چند فیصد کم کر کے وفاق کو دیا جائے۔ تاہم پیپلز پارٹی نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی۔ چونکہ پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر ترمیم منظور نہیں ہوسکتی، اس لیے اس حصے کو چھوڑنا پڑا، ورنہ یہ بہت اہم نکتہ تھا اور اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے توصوبوں کا حصہ چند فیصد کم کر کے وفاق کو دینا ہی پڑے گا۔ اسی طرح صوبوں سے تعلیم اور فیملی پلاننگ کے شعبے پھر سے مرکز کو دینے کی تجویز تھی، ان پر بھی پیپلز پارٹی نہیں مانی۔
یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ایگزیکٹیو مجسٹریسی پھر سے رائج ہوجائے گی۔ اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل کمشنر وغیرہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات مل جائیں گے اور وہ عدلیہ کے ماتحت نہیں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی نے اس کی بھی حمایت نہیں کی اور یوں یہ بھی ڈراپ کرنا پڑا۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے جو ڈیڈلاک موجود ہے، اس کا بھی کوئی حل نکالا جائے گا مگر ترمیم کے مسودے میں اس بارے میں شق شامل نہیں کی گئی۔
پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے 27ویں ترمیم کا مسودہ تو منظور کر لیا، مگر دو تجاویز کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔ اے این پی نے خیبر پختونخوا کے نام کو تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی، وہ اسے صرف پختونخوا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری تجویز بلوچستان کے ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ قومی سیاست میں بلوچستان کی اہمیت اور عددی حیثیت بڑھے۔ ان دونوں تجاویز پر ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم انہیں منظور کرنا بڑی دونوں جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کی ترجیح نہیں لگ رہی، یہ حکمران اتحاد کی چھوٹی جماعتوں کی جانب سے آئی ہیں۔ ممکن ہے انہیں اکاموڈیٹ کر دیا جائے یا پھر انہیں ڈراپ کرنے پر اتفاق رائے کر لیا جائے۔

اس ترمیم کے منظور ہونے سے اپوزیشن خاص کر تحریک انصاف کو اصل نقصان پہنچے گا (فوٹو: اے ایف پی)

27ویں ترمیم کے ممکنہ اثرات
اس آئینی ترمیم کے منظور ہوجانے سے حکومت بہت زیادہ طاقتور جبکہ اپوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی۔ نئی آئینی عدالت کی تشکیل اور ججوں کی مرضی کے بغیر ان کے ٹرانسفر کا اختیار مل جانا بہرحال کسی نہ کسی حد تک عدلیہ کی آزادی اور اتھارٹی کو متاثر کرے گا۔ دوسری طرف آرٹیکل 243 میں ترمیم فیلڈ مارشل صاحب کو آئینی تحفظ اور کچھ مزید قوت عطا کرے گا۔
یوں لگ رہا ہے کہ اس ترمیم کے منظور ہونے سے اپوزیشن خاص کر تحریک انصاف کو اصل نقصان پہنچے گا۔ اسی وجہ سے اپوزیشن نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے کہ ہم پارلیمنٹ نہیں چلنے دیں گے، انہوں نے اپنے احتجاجی نعرے کو نام دیا ہے، ’ایسے دستور کو ہم نہیں مانتے۔‘
مولانا فضل الرحمان ابھی اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل نہیں، مگر لگ یہی رہا ہے کہ وہ حکومت کے بجائے اپوزیشن کے قریب رہیں گے، ویسے بھی اس مرتبہ مولانا کے ووٹوں کی ضرورت نہ ہونے کے باعث انہیں ساتھ ملانے کی حکومت نے کوئی خاص کوشش ہی نہیں کی تھی۔

 

شیئر: