Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی ’دہری پالیسی‘ نے اسے کیسے نقصان پہنچایا ہے؟

پاکستان میں گذشتہ روز اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے سیاسی صورت حال پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان انتخابات میں خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت گئی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے بھی ن لیگ قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ کے علاوہ جو پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے جیتی ہے، تمام صوبائی نشستیں بھی ن لیگ کے حصے میں آئی ہیں۔
فروری 2024 کے بعد یہ سب سے بڑے ضمنی انتخابات تھے جن میں بیک وقت قومی اور صوبائی کی 13 سیٹوں پر ہوئے۔ فارم 47 کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام چھ جبکہ پنجاب اسمبلی کی سات میں سے چھ نشتیں مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی ہیں۔
ان ضمنی انتخابات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے اندرونی انتخابات نہ ہونے کے باعث اس بار بھی بطور جماعت انتخابی نشان سے محروم رہی۔ اور اس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حیثیت میں ان انتخابات میں حصہ لیا۔
پی ٹی آئی کی ان انتخابات میں حکمت عملی پر سیاسی اور صحافتی تجزیہ کار مختلف آرا پیش کر رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رہنما فواد چوہدری نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’امید ہے عمر ایوب کا الیکشن لڑنے کا شوق اچھی طرح پورا ہو گیا ہو گا۔ عمران خان کا انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہ مان کر اتنی ہی بڑی غلطی کی جتنی 8 فروری کی رات احتجاج میں نہ جا کر کی۔ اس ایک نشست پر شکست نے کامیاب بائیکاٹ کا آدھا اثر ضائع کیا۔‘
اس پوسٹ کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی مجموعی طور پر پالیس تبدیل ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر یہ اعلانات کیے گئے کہ پارٹی ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے اور ان میں حصہ نہیں لے گی۔ وہیں الیکشن سے دو روز قبل پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہری پور کے حلقہ این اے 18 اور لاہور کے حلقہ 129 کے امیدواروں کی مہم چلائی گئی اور ووٹروں سے اپیل کی گئی کہ وہ ووٹ ڈالیں۔
اسی حکمت عملی پر سینیئر صحافی سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف بار بار اپنے سیاسی فیصلوں سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو رہی ہے۔ بائیکاٹ اگر حل ہوتا تو پیپلز پارٹی جس نے 85 کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا وہ آج تک پنجاب میں اپنی غیرمقبولیت کو اس فیصلے سے نہ جوڑتی۔‘
’سیاسی لڑائیاں سیاسی طریقے سے ہی اچھی لگتی ہیں، اور جتنی کشمکش اس بار نظر آئی اس کی مثال پہلے نہیں ہے۔ ایک طرف بائیکاٹ کی کال اور دوسری طرف لاہور اور ہری پور کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جو چیز ان کے مخالفین چاہتے تھے وہ اپنے فیصلوں سے وہی کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی حکمت عملی پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے؟‘
کچھ اسی طرح کے تبصرے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جن میں کارکن اور ہمدرد پارٹی پالیسی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم دوسری طرف پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیمیں کم ٹرن آوٹ کو کامیاب بائیکاٹ سے بھی تشبیح دے رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی ان انتخابات میں سیاسی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’یہ جو نتائج آئے ہیں وہ زیادہ اچنبھے کی بات نہیں ہے البتہ ہری پور کا نتیجہ کافی اہم ہے۔ اچنبھے کی بات اس لیے کہ تحریک انصاف اپنے متضاد فیصلوں اور لیڈرشپ کے بحران کا ہمیشہ سے شکار رہی ہے، اور اس کے نتائج بھی ایسے ہی ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی جگہ بناتی ہیں اور جو جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اسی کی سیاست بھی پختہ ہوتی جاتی ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔‘
ان ضمنی انتخابات کے حوالے سے بات کرنے کے لیے پنجاب میں تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی رہنما بھی دستیاب نہیں ہوا۔

 

شیئر: