Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طویل دُکھوں کے بعد خوشی کا موقع‘، غزہ میں 54 جوڑوں کی اجتماعی شادی

اجتماعی شادی کی تقریب خان یونس میں تباہ حال عمارتوں کے قریب منعقد ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
طویل عرصے تک بموں گھن گرج سے گونجنے والے غزہ میں آج کل شہنائی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو ایک اجتماعی شادی کی تقریب سے آ ر ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غزہ کے علاقے خان یونس میں ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب میں 54 جوڑے رشتہ ازدواج میں بندھے جن میں 27 سالہ ایمان حسن لَوا اور حکمت لَوا بھی شامل تھیں جنہوں نے فلسطین کے روایتی شادی کے جوڑے پہن رکھتے تھے۔
وہ دیگر دلنہوں کے ہمراہ ہاتھ پکڑ کر تباہ حال عمارتوں کے قریب سے گزر رہی تھیں اور لوگ ان کو ہاتھ ہلا کر مبارک باد دے رہے تھے۔
اس موقع پر ایمان حسن کا کہنا تھا کہ ’سب کچھ ہو جانے کے باوجود ہم ایک نئی زندگی کا آغازکریں گے، اللہ نے چاہا تو یہ جنگ کا خاتمہ ہو گا۔‘
شادی کی تقاریب فلسطین کے کلچر کا اہم حصہ ہیں تاہم غزہ کی جنگ کے دوران ان کا سلسلہ بہت زیادہ حد کم ہو گیا تھا اور یہ کچھ عرصہ پیشتر ہونے والے جنگ بندی کے ’نازک معاہدے‘ کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔
ایمان حسن بھی ان 20 لاکھوں لوگوں میں شامل ہیں جن کو جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا، شہر کی زیادہ تر عمارتیں کھنڈر بنی ہوئی ہیں اور امدادی سامان کی قلت اور حملوں کے خدشات کے پیش نظر اب بھی لوگوں کو روزمرہ زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نوجوان جوڑے جو آپس میں رشتہ دار ہیں، جنگ کے دنوں میں قریبی علاقے دیر البلاح کی طرف چلے گئے تھے اور کافی مشکلات کا سامنا کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم کہ موجودہ حالات میں ایک نئی زندگی کیسے گزاریں گے مگر انہوں نے سفر شروع کر دیا ہے۔

اجتماعی بارات کی گاڑیاں تباہ حال علاقوں سے گزرتی رہیں (فوٹو: اے پی)

حکمت لوا کا کہنا تھا کہ ’ہم بھی باقی دنیا کی طرح خوش ہونا اور رہنا چاہتے ہیں، میرا ہمیشہ سے خواب تھا کہ میرا گھر ہو، جاب ہو، مگر آج میرا خواب رہنے کے لیے کسی ٹینٹ کی تلاش ہے۔‘
ان کے مطابق ’زندگی واپس لوٹنا شروع ہو گئی ہے مگر یہ ویسی نہیں جس کی ہم امید کر رہے تھے۔‘
اجتماعی شادیوں کی اس تقریب کا اہتمام الفارس الشاہیم کی مالی اعانت سے کیا گیا جو کہ ایک امدادی ادارہ ہے اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کام کرتا ہے۔
تقریب کے انعقاد کے علاوہ ادارے کی جانب سے نوبیاہتا جوڑوں کو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے کچھ رقم کی سلامی بھی دی گئی اور کچھ ضروری سامان بھی دیا گیا۔
فلسطین میں روایتی طور پر شادی کی تقاریب کئی روز تک جاری رہتی ہیں اور ان کو ایک اہم سماجی موقع کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اس سے بہت سے خاندانوں کے مسقتبل روشن ہوتے ہیں۔
ایسے مواقع پر دولہا دلہن کو ان کے رشتہ داروں کی جانب سے بہت پیار دیا جاتا ہے جن میں گلیوں میں رقص اور بارات کے مراحل شامل ہیں جبکہ ان مواقع پر کھانے کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔

جوڑوں کے رشتہ دار تقریب کے دوران کافی خوش دکھائی دیے (فوٹو: اے پی)

فلسطینی ثقافت پر گہری نظر رکھنے والی برنارڈ کالج میں سماجیات کی پروفیسر رندا سیرہان کا کہنا ہے کہ شادیاں زندگی کی علامت اور فلسطینی روایات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔
ان کے مطابق ’ہر نئی شادی کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یادیں اور خاندانی نسب ختم ہونے والے نہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ جوڑے ایک ناممکن قسم کی صورت حال میں زندگی گزارنے جا رہے ہیں۔‘
منگل کے روز جوڑوں کو لے جانے والا جلوس مختلف مقامات سے گزار جس کے راستے میں تباہ حال عمارتیں آتی رہیں۔

تقریب کا اہتمام امدادی ادارے الفارس الشاہیم کی جانب سے کیا گیا تھا (فوٹو: اے پی)

ایمان حسن اور حکمت لوا نے دوسروں کی طرح فلسطین کے جھنڈے لہرائے جبکہ ان کے آس پاس خاندان کے افراد نے روایتی موسیقی کی تھاپ پر رقص بھی کیا۔
ایمان اور حکمت جنہوں نے سرخ اور سبز رنگوں پر مشتمل روایتی لباس پہن رکھے تھے، کا کہنا تھا کہ اس شادی نے ان کو کئی برس کی مشکلات کے بعد خوشی کا چھوٹا سا موقع دیا ہے۔
ایمان حسن اس وقت اپنے والد، والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ بھی ہوئیں، جو جنگ کے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
ان کے مطابق ’ایسے غموں کے بعد خوشی کا لطف اٹھانا مشکل ہے۔‘ اس کے ساتھ ہی ان کے آنسو ڈھلک گئے۔
’ہم اپنے شہر کو پھر سے آباد کریں گے، انشااللہ‘
 

شیئر: