Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچوں کی بتدریج سکولوں میں واپسی

اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایجنسی   نے اس ہفتے اعلان کیا کہ غزہ میں فائر بندی کے آغاز کے بعد اس نے علاقے میں کچھ سکول دوبارہ کھول دیے ہیں، اور بچے بتدریج کلاسوں میں واپس آ رہے ہیں۔
یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ فلیپ لازارینی نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر بتایا کہ اب تک 25 ہزار سے زائد بچے ایجنسی کے ’عارضی تعلیمی مراکز‘ میں جائن کرچکے ہیں، جب کہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن کلاسیں لیں گے۔
مرکزی غزہ پٹی کے علاقے نُصیْرات میں واقع الحسینہ سکول میں کلاسیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں، اگرچہ کلاس رومز کی شدید کمی ہے۔
11 سالہ طالبہ وردہ رضوان نے بتایا کہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے بےتاب ہے۔
’میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن نقل مکانی اور جنگ کی وجہ سے میری دو سال کی تعلیم ضائع ہو گئی۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ کے دوران، الحسینہ سکول بھی دیگر یو این آر ڈبلیو اے عمارتوں کی طرح درجنوں بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا تھا۔
ان خاندانوں کی موجودگی کے آثار اب بھی عمارت کی تین منزلوں پر لٹکی کپڑوں کی رسیوں سے ظاہر ہیں۔
وردہ نے بتایا کہ ’کلاسیں آہستہ آہستہ دوبارہ شروع ہو رہی ہیں کیونکہ سکول میں رہنے والے خاندانوں کو اب خالی کرایا جا رہا ہے۔‘
اس نے مزید کہا کہ ’پھر ہم اپنی تعلیم ویسے ہی جاری رکھ سکیں گے جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔‘
ہفتے کے روز سکول کے صحن میں چھوٹی بچیاں صبح کی اسمبلی کے لیے قطار میں کھڑی تھیں، اساتذہ کی نگرانی میں ورزشیں کر رہی تھیں اور نعرہ لگا رہی تھیں کہ ’فلسطین زندہ باد!
کلاس شروع ہوتے ہی تقریباً پچاس بچیاں ایک ہی کلاس روم میں جمع تھیں گوکہ نہ کرسیاں تھیں اور نہ میزیں، سب زمین پر بیٹھی تھیں۔
پھر بھی وہ استاد کے سوالوں کے پرجوش جوابات دے رہی تھیں اور بورڈ سے سبق نقل کر کے اپنی کاپیوں میں لکھ رہی تھیں۔ دو سال بعد اسکول واپس آنے کی خوشی ان کے چہروں پر نمایاں تھی۔
ایک اور کلاس روم میں کچھ بڑی عمر کی طالبات تھیں، لیکن حالات وہی تھے، سب زمین پر بیٹھی تھیں اور کاپیاں گود میں رکھ کر لکھ رہی تھیں۔
ایک طالبہ کی رشتہ دار جنین ابو جراد نے کہا کہ وہ بچوں کے سکول واپس آنے پر شکر گزار ہیں۔
 ’7  اکتوبر کے بعد سے ہمارے بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس دوران وہ صرف پانی لانے، کھانا ڈھونڈنے یا گلیوں میں کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ تقریباً ایک ہفتہ یا دس دن پہلے سے سکول آہستہ آہستہ دوبارہ کھلنے لگے ہیں۔‘

شیئر: